میراث کے چند مسائل

میرے شوہر کا انتقال دو سال قبل ہوگیا ہے۔ میں ایک گرلز اسکول کی پرنسپل شپ سے وظیفہ یافتہ ہوں ۔ کچھ جائیداد میرے شوہر کی موروثی ہے، کچھ ان کی خریدی ہوئی ہے اور کچھ جائیداد میں نے اپنی آمدنی سے بنائی ہے۔ میری کوئی اولاد نہیں ہے، دوسرے رشتہ دار ہیں ۔ میں ان تمام جائیدادوں کو شرعی اعتبار سے تقسیم کرنا چاہتی ہوں ۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ (۱) میرے خسر صاحب اور ساس صاحبہ کا عرصہ ہوا انتقال ہوچکا ہے۔ چند ایکڑ زرعی زمین ان کے ورثہ میں تھی۔ خسر صاحب کے انتقال کے وقت ان کے پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں ۔ ان میں سے میرے شوہر کا حال میں انتقال ہوگیا ہے۔ اس جائیداد میں میرے شوہر کا یا میراکیا شرعی حق بنتا ہے؟ (۲) میرے شوہر نے ایک مکان ہاؤسنگ بورڈ سے قسطوں پر خریدا تھا۔ ابھی تقریباً ایک لاکھ روپے ہاؤسنگ بورڈ کو اور ادا کرنا ہے۔ انتقال کے وقت ان کے اکاؤنٹ میں تیرہ ہزار روپے تھے۔ ان کے تین بھائی اور پانچ بہنیں حیات ہیں ۔ اس مکان کو فروخت کرکے اس کی شرعی تقسیم کس طرح کی جائے؟ (۳) اپنے والدین سے وراثت میں مجھے چند ایکڑ زرعی زمین ملی ہے۔ اس کے علاوہ میری آمدنی سے بنایا گیا مکان اور کچھ پلاٹ ہیں ۔ میری جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ میری حیات کے بعد کا ہے۔ مگر میں چاہتی ہوں کہ مستقبل میں کوئی مسئلہ یا نزاع میرے میکے اور سسرال والوں کے درمیان نہ ہو۔ فی الوقت میرے تین بھائی اور دو بہنیں حیات ہیں ۔ دو بہنوں کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان کے بچے موجود ہیں ۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں : (الف) مجھ جو زرعی زمین اپنے والدین سے ملی ہے کیا وہ پوری زمین ان کے ایصال ثواب کے لیے صدقہ کرسکتی ہوں ؟ فی الوقت اسے بیچنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کے ساتھ میری بہنوں کی زمین بھی مشترک ہے۔ کیا اس کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے؟ (ب) میں اپنی کل جائیداد میں سے کتنا حصہ اللہ کی راہ میں دے سکتی ہوں ؟ (ج) کیا میں اپنی جائیداد ثواب ِ جاریہ کے لیے یا رشتہ داروں کے حق میں وصیت کرسکتی ہوں ؟
جواب

معاشرتی زندگی سے متعلق قرآن کریم میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں ، ان میں غالباً سب سے زیادہ تفصیل اور تاکید کے ساتھ میراث کے احکام مذکور ہیں ۔ میراث کے حصے متعین کرنے کے بعد انھیں ’نَصِیْبًا مَفْرُوْضًا‘ (اللہ تعالیٰ کی جانب سے متعین کردہ حصہ) ’فَرِیْضَۃً مِنَ اللّٰہِ‘ (اللہ کی جانب سے عائد کردہ فرض) اور ’وَصِیَّۃً مِنَ اللّٰہِ‘ (اللہ کی جانب سے مؤکد) قرار دیا گیا ہے (النساء: ۷، ۱۱، ۱۲) لیکن افسوس کہ معاشرے میں صحیح انداز سے میراث کی تقسیم کا چلن نہیں ہے۔ آپ قابل مبارک باد ہیں کہ آپ کو اس حکمِ الٰہی کی اہمیت کا احساس ہے اور اپنے مرحوم شوہر کی میراث اور مملوکہ جائیداد کو شرعی اعتبار سے تقسیم کرنا چاہتی ہیں اور اپنی جائیداد کی بھی مناسب تقسیم کے لیے فکر مند ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاے خیر عطا فرماے۔
آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :
(۱) آپ کے خسر صاحب کی وفات کے وقت ان کے پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں حیات تھے۔ ان کی چھوڑی ہوئی جائیداد ان لوگوں کے درمیان قرآنی اصول لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ (ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر) کے مطابق تقسیم ہونی چاہیے۔ مذکورہ جائیداد کے پندرہ حصے کیے جائیں ۔ ہر لڑکی کو ایک حصہ اور ہر لڑکے کو دو حصے کے اعتبار سے دیا جائے۔ اس جائیداد میں سے آپ کے شوہر کا جو حصہ بنتا ہے (پندرہ حصوں میں سے دو حصے) وہ ان کے انتقال کے بعد ان کے وارثوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔
(۲) میراث کی تقسیم قرض کی ادائی کے بعد عمل میں لائی جاتی ہے۔ آپ کے شوہر کے خریدے ہوئے مکان کی قیمت میں سے ابھی ایک لاکھ روپے کی قسطیں ادا کی جانی ہیں ۔ اس مکان کو فروخت کرکے اس میں سے ایک لاکھ روپے منہا کردیے جائیں ۔ بقیہ رقم میں ان کے اکاؤنٹ میں موجود روپے (تیرہ ہزار) شامل کرکے اسے وارثوں کے درمیان تقسیم کیا جائے۔ آپ کے شوہر کے متعلقین میں آپ (بیوی) کے علاوہ تین بھائی اور پانچ بہنیں زندہ ہیں ۔ قرآنی حکم کے مطابق اولاد نہ ہونے کی صورت میں بیوی کا حصہ ایک چوتھائی اور اولاد ہونے کی صورت میں آٹھواں حصہ ہے۔ (النساء: ۱۲) اس اعتبار سے آپ کے شوہر کی میراث میں آپ کا حصہ ایک چوتھائی ہے۔ بقیہ (تین حصوں کی) میراث ان کے بھائی بہنوں کے درمیان (جو اصطلاح فقہ میں ’عصبہ‘ کہلاتے ہیں ) اس طرح تقسیم ہوگی کہ ایک مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔ بہ الفاظ دیگر بقیہ میراث کے گیارہ حصے کیے جائیں ۔ ہر بہن کو ایک حصہ اور ہر بھائی کو دو حصے دیے جائیں ۔
(۳) آپ جس جائیداد کی مالک ہیں ، خواہ وہ آپ کو میراث میں ملی ہو، یا آپ نے اپنی کمائی سے حاصل کی ہو، اس میں آپ اپنی صواب دید پر جس طرح چاہیں تصرف کرسکتی ہیں ۔ البتہ اس معاملے میں چند باتیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
(الف) تقسیم میراث کا مسئلہ وفات کے بعد سے متعلق ہوتا ہے۔ کسی جائیداد کا مالک اپنی حیات میں اس میں سے جتنا چاہے، جس کو چاہے، دے سکتا ہے۔
(ب) اپنی جائیداد کسی دوسرے کو دینے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ اپنی زندگی میں کسی کو اس کا مالک بنا دے۔ اسے ہبہ کہتے ہیں ۔ یا یہ کہے کہ میرے مرنے کے بعد میری فلاں جائیداد فلاں شخص کی ہوگی۔ یہ وصیت کہلاتی ہے۔ ہبہ کی کوئی مقدار متعین نہیں ۔ آدمی جتنا چاہے کسی کو ہبہ کرسکتا ہے۔ لیکن وصیت اپنی جائیداد میں سے ایک تہائی سے زیادہ کرنا جائز نہیں ۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اپنے پورے مال کی وصیت کرنی چاہی تو اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں ا س سے منع فرما دیا۔ انھوں نے دریافت کیا: کیا نصف مال کی وصیت کردوں ؟ آپؐ نے اس سے بھی منع فرمادیا۔ انھوں نے پھر عرض کیا: تو ایک تہائی مال کی؟ آپؐ نے فرمایا: الثُّلْثُ وَالثُّلْثُ کَثِیْرٌ۔ ہاں ایک تہائی ٹھیک ہے اور یہ بہت ہے۔ (بخاری: ۲۷۴۴، مسلم: ۱۶۲۸)
(ج) ورثہ میں سے کسی کے حق میں وصیت کرنی جائز نہیں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَعْطٰی لِکُلِّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ، فَلاَ وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ۔
(ترمذی: ۲۱۲۰)
’’اللہ نے ہر صاحب حق کا حق بیان کردیا ہے۔ اس لیے کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ۔‘‘
(د) ورثہ کو محروم کرنے کے مقصد سے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد ٹھکانے لگا دینا جائز نہیں ۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اللہ کے رسول ﷺ سے جب اپنے پورے مال کی وصیت کرنے کی اجازت چاہی تو آپؐ نے انھیں ایک تہائی سے زائد وصیت کرنے کی اجازت نہیں دی اور ساتھ میں یہ بھی فرمایا:
اِنَّکَ اَنْ تَذَرَ وَرَثَتَکَ اَغْنِیَائَ خَیْرٌ مِّنْ اَنْ تَذَرَھُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ۔ (بخاری: ۱۲۹۵، مسلم: ۱۶۲۸)
’’تم اپنے ورثہ کو مال دار چھوڑ کر جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں غربت کی حالت میں چھوڑو اور وہ دربدر کی ٹھوکریں کھائیں ۔‘‘