جواب
اسلامی شریعت نے جنین کو وہی حیثیت دی ہے جو زندہ انسان کی ہوتی ہے۔ اسی لیے اس نے ان تمام صورتوں کو ممنوع قرار دیا ہے، جن سے جنین کو ضرر لاحق ہوسکتا ہے۔ مثلاً اگر جنین کو کسی قسم کا خطرہ ہو تو حاملہ یا مرضعہ (دودھ پلانے والی) عورت کو رمضان کے روزے نہ رکھنے کا حکم ہے۔ اسی طرح اس پر حد جاری نہیں کی جاسکتی، جب تک کہ وہ بچے کو جنم نہ دے لے اور وہ دودھ چھڑانے کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔
اسی بنا پر علما نے روح پھونکے جانے کی مدت کے بعد اسقاط کو ناجائز قرار دیا ہے۔ یہ مدت بخاری و مسلم کی ایک حدیث کے مطابق ایک سو بیس دن ہے۔ اس سے قبل اس کے جواز یا عدم جواز کے سلسلے میں ان کا اختلاف ہے۔ بعض علما کے نزدیک بہ وقت ِ ضرورت جائز ہے۔ کیوں کہ روح پھونکے جانے سے قبل جنین محض ایک بے جان لوتھڑا ہے، لیکن بعض علما اس وقت بھی اسقاط کو حرام نہیں تو مکروہ ضرور قرار دیتے ہیں ۔ اس لیے کہ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو آئندہ اس میں روح پڑ جائے گی۔
بعض علما کے نزدیک روح پھونکے جانے کی مدت کے بعد بھی ناگزیر حالت میں اسقاط کروایا جاسکتا ہے۔ یہ ناگزیر صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جنین میں کوئی ایسا تخلیقی نقص پیدا ہوجائے کہ پیدا ہونے کے بعد اس کی زندگی اجیرن ہوجائے۔ الٹرا ساؤنڈ سے ایسے نقائص کا پتا لگ جاتا ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے ایک سوال کے جواب میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے اور ان علما کی رائے سے اپنے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے بعض دلائل دیے ہیں ، آخر میں لکھا ہے:
’’میری نظر میں صرف ایک ہی ایسی صورت ہے جس میں اسقاط کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کہ اسقاط نہ کرایا گیا تو ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ ایسی صورت میں ماں کی جان بچانے کے لیے حمل کو ساقط کرایا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ماں کی جان بہ ہر حال بچے کی جان سے زیادہ اہم ہے۔‘‘ (فتاویٰ یوسف القرضاوی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، جلد: دوم، ص: ۲۲۵)