نامحرم سے دوستی

آج کل انٹرنیٹ کی وبا عام ہو گئی ہے۔ اس کے ذریعے فحش ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں۔ اس میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی بڑی تعداد مبتلا ہے۔ موبائل پر رابطے آسان ہو گئے ہیں اور ملٹی میڈیا موبائل کے ذریعے بات کرنا، سننا اور دیکھنا سب آسان ہو گیا ہے۔ ایسی صورت میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں :

(1) کسی لڑکی یا لڑکے کا کسی نامحرم سے دوستی کرنا اور موبائل پر اس سے رابطہ رکھنا اور بات چیت کرنا شریعت کی نگاہ میں کیسا ہے؟

(2) کسی نامحرم سے اس حد تک دوستی بڑھ جائے کہ عریاں تصاویر کا تبادلہ ہو، شہوانی جذبات کو بھڑکانے والی باتیں ہوں تو کیا یہ عمل زنا کے مترادف ہوگا ؟اور اس پر ویسا ہی گناہ ہوگا جیسا عملِ زنا انجام دینے پر ہوتا ہے؟

(3) کسی دینی جماعت سے جڑا ہوا نوجوان لڑکا یا لڑکی یہ حرکت انجام دے اور دوسرے شخص کو اس کا پتہ چل جائے تو وہ اسے چھپائے یا ذمہ دار کو بتا دے؟

(4)ماں باپ کو پتہ چل جائے تو وہ اصلاح کے لیے کیا تدابیر اختیار کریں ؟

(5)اگر یہ حرکت کسی شادی شدہ مرد یا عورت سے سرزد ہو تو کیا یہ عمل ازدواجی زندگی میں بے وفائی شمار ہوگا؟ اور کیا اس کی بنیاد پر بھروسہ توڑنے کی وجہ سے طلاق یا مطالبۂ خلع جائز ہوگا؟

جواب

موجودہ دور میں انٹرنیٹ نے برائیوں کے دروازے چوپٹ کھول دیے ہیں۔ اس پر ہر طرح کی فحش اور عریاں چیزیں : فوٹوز، ویڈیوز، فلمیں وغیرہ موجود ہیں۔ ملٹی میڈیا موبائل میں انٹرنیٹ کی سہولت لازمی ہوتی ہے اور سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں نے بہت زیادہ مراعات دی ہیں، چنانچہ موبائل کا ایک بٹن دباتے ہی ہر طرح کے مواد تک رسائی ہو جاتی ہے اور کوئی بھی چیز دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔ اس صورتِ حال نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ ان کی بڑی تعداد موبائل میں گھنٹوں مصروف رہتی ہے اور اس کے ذریعے فحش ویڈیوز دیکھنے کا انھیں چسکا لگ گیا ہے۔ موبائل کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ آسان ہو گیا ہے،چنانچہ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات اور دوسرے لڑکے اور لڑکیاں بھی بے تکلف ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں اور ان کی دوستی بسا اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ آپس میں فحش باتیں اور گندے کام تک کرنے لگتے ہیں۔ نئی نسلوں کو انٹرنیٹ کے برے اثرات سے بچانا موجودہ دور کی سخت ضرورت ہے۔

اس پس منظر میں دریافت کیے گئے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :

(1) شریعت نے مردوں عورتوں اور لڑکوں لڑکیوں کے درمیان رابطہ کے حدود متعین کیے ہیں اور ان کی پابندی کی سخت تاکید کی ہے۔ نامحرموں کا ایک دوسرے سے ملنا جلنا، بات چیت کرنا، تنہائی میں رہنا، گھومنا پھرنا اور خوش گپیاں کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

لاَ یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامرأَۃٍ اِلاَّ مَعْ ذِیْ مَحْرَمٍ

(بخاری: 5233، مسلم: 1341)

(کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ اس کے محرم کے بغیر تنہائی میں نہ رہے۔)

یہی حکم موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعے کسی سے رابطہ رکھنے اور بات چیت کرنے کا بھی ہے۔ کوئی ضروری معاملہ ہو، مثلاً دین کی کوئی بات پوچھنی ہو، شریعت کا کوئی حکم دریافت کرنا ہو، یا تعلیمی امور میں کوئی رہ نمائی لینی ہو تو کچھ گنجائش ہو سکتی ہے، لیکن اس کے علاوہ بات چیت کرنا، تعلق بنانا اوردوستی رکھنا جائز نہیں ہے۔

(2)ایک خاص عمر (بلوغ) تک پہنچنے کے بعد ہر انسان میں صنفی جذبات پروان چڑھنے لگتے ہیں۔ کوئی عورت ہو یا مرد، وہ صنفِ مخالف کی طرف کشش محسوس کرتا ہے،ایسا ہونا فطری ہے،لیکن شریعت اس جذبے کو کنٹرول کرنے اور اسے جائز حدود میں رکھنے کی تاکید کرتی ہے۔ کسی مرد اور عورت کے درمیان جنسی تعلق (Sexual Relation) کے لیے نکاح شرط ہے۔ اس کے بغیر اعلانیہ یا خفیہ کسی طرح کا تعلق جائز نہیں ہے۔ مردوں اور عورتوں دونوں کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْ أَخْدَان(سورۃالمائدۃ : 5)

( تاکہ تم ان (عورتوں ) کے محافظ بنو، نہ یہ کہ ٓازاد شہوت رانی کرنے لگو، یا چوری چھپے آشنائیاں کرو۔)

مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَلاَ مُتَّخِذٰتِ أَخْدَان(سورۃالنساء: 25)

(تاکہ وہ (عورتیں )حصار نکاح میں محفوظ ہو کر رہیں۔ آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں۔ )

دل میں برے خیالات پیدا ہونا پسندیدہ نہیں۔ شیطان کے بہکاوے سے اگر برے خیالات پیدا ہوں تو انھیں جھٹک دینا چاہیے، لیکن اس کے نتیجے میں اگر کوئی عملی اقدام کیا جائے تو یہ گناہ ہے۔ کسی نامحرم کی عریاں تصویر یا ویڈیو دیکھی جائے، اس سے ہاتھ ملایا جائے،یا موبائل پر اس سے شہوانی باتیں کی جائیں، یہ سب کام حرام ہیں۔ اس لیے کہ یہ بڑے حرام کام یعنی زنا تک پہنچانے والے ہیں۔ حدیث میں ان سب کو زنا کہا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

زنا العین النظر، وزنا اللسان المنطق، والنفس تمنّی و تشتھی، والفرج یصدّق ذلک کلّہ أو یکذّبہ

(بخاری: 6612، مسلم: 2657)

(آنکھ کا زنا (نامحرم کو) دیکھنا ہے، زبان کا زنااس سے بات کرنا ہے۔ نفس (ناجائز عمل کی) خواہش اور طلب پیدا کرتا ہے اور شرم گاہ اس کو پورا کر دیتا ہے، یا اس کی نوبت نہیں آ پاتی۔‘‘

اس حدیث میں زنا تک پہنچانے والے اعمال کو بھی زنا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن یہ تنبیہی اور تہدیدی اسلوب ہے۔ قانونی اور فقہی زبان میں اس پر زنا کا اطلاق نہیں ہوگا، اس لیے اس پر زنا کے درجے کا گناہ نہیں ہوگا،لیکن بہرحال ان کاموں کی شناعت کی وجہ سے ان سے بھی بچنا ضروری ہے۔

(3) کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی سے ایسی نازیبا اور ناشائستہ حرکتیں سرزد ہو جائیں اور کسی دوسرے شخص کو ان کا پتہ چل جائے تو اسے ان کی تشہیر کرنے اور دوسروں میں ان کا چرچا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسولﷺ نے دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی کرنے کی تلقین کی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

من ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامۃ

(بخاری : 2442، مسلم : 2580)

(جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی پردہ پوشی کرے گا۔)

ابتدا میں خود اس نوجوان لڑکے یا لڑکی کو سمجھانے بجھانے اور ان کے سامنے ان قبیح حرکتوں کی شناعت بیان کرنی چاہیے۔ اگر ایک سے زائد بار سمجھانے کے باوجود وہ ان حرکتوں سے باز نہ آئے تو اس کے والدین کو یہ باتیں بتائی جا سکتی ہیں، یا اگر اس کا تعلق کسی دینی جماعت سے ہو تو ذمہ دار کو بھی اس کی اطلاع دی جا سکتی ہے۔

(4) ماں باپ کو اپنی اولاد کے معاملے میں بہت زیادہ حساس اور فکر مند رہنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے نو عمری میں غلط کاموں میں مبتلا ہونے کا بڑا اندیشہ رہتا ہے۔ انھیں اپنے بچوں کی دینی تربیت کی ہمہ وقت فکر کرنی چاہیے۔ انھیں برابر نصیحت کرتے رہنا چاہیے اور ان کے سامنے ممکنہ برائیوں کی سماجی، اخلاقی، نفسیاتی اور دینی اعتبار سے قباحت اور شناعت بیان کرتے رہنا چاہیے۔ پھر اگر بچوں کے کسی برے کام میں مبتلا ہو جانے کا خود انھیں پتہ چل جائے، یا کوئی دوسرا شخص انھیں اس کی خبر دے تو ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ سمجھانے بجھانے سے آگے بڑھ کر کبھی تنبیہ، سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ سے بھی کام لیا جا سکتا ہے، لیکن اس معاملے میں احتیاط ملحوظ رہے کہ ڈانٹ ڈپٹ کا الٹا اثر ہوتا ہے اور بچے سرکش اور باغی ہو جاتے ہیں۔ بہرحال جہاں تک ہو سکے والدین کو اپنے بچوں کی اصلاح اور تربیت سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔

(5) ازدواجی زندگی کی بنیاد شوہر اور بیوی کے درمیان اعتماد پر استوار ہوتی ہے۔ اگر اعتماد اٹھ جائے تو خوش گواری باقی نہیں رہ سکتی، بلکہ شکوہ شکایات، دوریاں، تلخیاں اور گھریلو جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں، جن کا خاتمہ علیٰحدگی پر ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں نیک عورتوں کا یہ وصف بیان کیا گیا ہے:

فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّہ(سورۃالنساء : 34)

(پس نیک عورتیں اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ )

عورت بھی اپنے شوہر سے اس کی امید رکھتی ہے کہ اس کے تعلقات نامحرم عورتوں سے نہ ہوں اور وہ ان سے کسی طرح کا ناجائز ربط ضبط نہ رکھے۔

کسی شادی شدہ مرد یا عورت کا غیر عورت یا مرد سے کھلے یا چھپے طور پر ناجائز تعلق رکھنا شرعی طور پر جائز نہیں ہے اور یہ اپنے جوڑے سے بے وفائی ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے تو اس کی بنیاد پر طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا جائز ہوگا۔

February 2024