نذر کی شرعی حیثیت

بعض لوگ نذر مانتے ہیں کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنی رکعت شکرانہ نماز ادا کروں گا یا اتنی رقم خیرات کردوں گا؟ یہ تو اللہ تعالیٰ سے سودے بازی معلوم ہوتی ہے۔ کیا اس طرح نذر ماننی درست ہے؟ بہ راہِ کرم نذر کی شرعی حیثیت سے آگاہ فرمائیے۔
جواب

نذر کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی چیز کو، جو اس پر لازم نہ ہو، اپنے اوپر لازم کرلے۔ قرآن و سنت میں نذر کو پورا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور اسے نیک لوگوں کا ایک وصف قرار دیا گیا ہے۔ سورۂ حج میں ہے: وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ (آیت:۲۹) ’’اور اپنی نذریں پوری کریں ۔‘‘ سورۂ دہر میں جنت کے مستحق اللہ کے نیک بندوں کے، جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں ان میں یہ بھی ہے: یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ آیت:۷، (وہ نذر پوری کرتے ہیں ) اور حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ نَذَرَ اَنْ یُّطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ۔
(صحیح بخاری، کتاب الأیمان والنذور، باب النذر فی الطاعۃ، حدیث: ۶۶۹۶)
’’جس نے اللہ کی اطاعت کے کسی کام کی نذر مانی اسے چاہیے کہ اسے پورا کرے۔‘‘
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نذر ماننا مستحب اور افضل عمل ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ اور اکابر ِ صحابہ نے ایسا ضرور کیا ہوتا، لیکن ان سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
بعض لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ نذر ماننے سے، جس چیز کے لیے نذر مانی جائے، وہ جلد پوری ہوجاتی ہے۔ یا اللہ تعالیٰ اس نذر کی وجہ سے وہ کام کردیتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر نذر سے تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ اس اعتقاد کے ساتھ نذر ماننے سے اللہ کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں ۔ نبی ﷺ نے نذر ماننے سے منع کیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّہٗ لاَ یَرُدُّ شَیْئًا وَ اِنَّمَا یُسْتَخْرَجُ مِنَ الْبَخِیْلِ۔(صحیح بخاری، کتاب القدر، باب القاء النذر العبد الٰی القدر، حدیث: ۶۶۰۸، صحیح مسلم، کتاب النذر، باب النھی عن النذر، حدیث: ۱۶۳۹)
’’جو کچھ انسان کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے، نذر سے اس کو بدلا نہیں جاسکتا۔ البتہ نذر کے ذریعے بخیل (کی جیب) سے کچھ نکل آتا ہے۔‘‘
عہد نبوی میں لوگ طرح طرح کی نذریں مانا کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ نذریں طاعت کے قبیل سے ہوتی تھیں ، کچھ معصیت کی ہوتی تھیں اور کچھ نفس انسانی کے لیے شاق گزرتی تھیں ۔ آپؐنے معصیت کی نذروں پر عمل سے روکا۔ تقربِ الٰہی کے کاموں پر مشتمل نذروں کو پورا کرنے کی اجازت دی، البتہ ان میں سے جو نفسِ انسانی کے لیے شاق تھیں ان کے بارے میں صراحت فرمادی کہ ان پر من و عن عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ عہد نبوی کے درج ذیل واقعات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ فتحِ مکہ کے موقعے پر ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ میں نے نذر مانی تھی کہ مکہ فتح ہوگا تو میں بیت المقدس جاکر دو رکعت نماز ادا کروں گا۔ حضوؐر نے فرمایا: یہیں پڑھ لو۔ اس نے کہا: لیکن میں نے تو بیت المقدس جاکر نماز ادا کرنے کی نذر مانی تھی۔ آپؐنے پھر فرمایا: یہیں پڑھ لو۔ اس نے پھر اپنی بات دہرائی تو آپؐ نے فرمایا: تو جاؤ، دوسری روایت میں ہے کہ آپؐنے اس شخص سے فرمایا: تمھارے یہاں نماز ادا کرلینے سے بیت المقدس میں نماز ادا کرنے کی نذر پوری جائے گی۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الأیمان والنذور، باب من نذر ان یصلی فی بیت المقدس، حدیث: ۳۳۰۵، ۳۳۰۶)
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا، جو اپنے بیٹوں کے کندھوں پر جھولتا ہوا چل رہا تھا۔ دریافت فرمایا: اسے کیا ہوگیا ہے؟ لوگوں نے بتایا: اس نے پیدل (حج کے لیے) جانے کی نذر مانی ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنْ تَعْذِیْبِ ھٰذَا نَفْسَہُ۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان والنذور، باب النذر فیما لا یملک و فی معصیۃ، حدیث: ۶۷۰۱، کتب جزاء الصید، باب من نذر المشی الی الکعبۃ، حدیث: ۱۸۶۵، صحیح مسلم، کتاب النذر، باب من نذر ان یمشی الٰی الکعبۃ حدیث: ۱۶۴۲، یہ حدیث دیگر کتب ِ حدیث میں بھی مروی ہے)
’’اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے کہ یہ شخص اپنے آپ کو تکلیف دے۔‘‘
آپؐ نے اسے سواری استعمال کرنے کا حکم دیا۔
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک موقعے پر آں حضرت ﷺ خطبہ دے رہے تھے۔ آپؐ نے ایک شخص کو مستقل کھڑا ہوا دیکھا۔ اس کے بارے میں دریافت کیا تو پتا چلا کہ اس نے نذر مانی ہے کہ مستقل کھڑا رہے گا۔ نہ بیٹھے گا، نہ سایے میں رہے گا، نہ کسی سے بات کرے گا اور اسی حالت میں روزہ رکھے گا۔ آپؐ نے فرمایا:
مُرْہُ فَلْیَتَکَلَّمْ وَلْیَسْتَظِلَّ وَلْیَقْعُدْ، وَلْیُتِمَّ صَوْمَہٗ۔(صحیح بخاری، کتاب الایمان والنذور، باب النذر فیما لا یملک و فی معصیۃ، حدیث: ۶۰۷۴)
’’ اس سے کہو، بات بھی کرے، سایے میں بھی رہے، بیٹھے بھی اور اپنا روزہ بھی پورا کرے۔ ‘‘
حضرت عمر بن الخطابؓ نے ایک موقعے پر رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک دن مسجد ِ حرام میں اعتکاف کروں گا۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: تو پھر جاؤ! اعتکاف کرو۔ (صحیح بخاری، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف لیلاً، حدیث: ۲۰۳۲ باب اذا نذر فی الجاھلیۃ ان یعتکف ثم اسلم، حدیث: ۲۰۴۳، صحیح مسلم، کتاب الأیمان، باب نذر الکافروما یفعل فیہ اذا اسلم، حدیث: ۱۶۵۶، یہ حدیث دیگر کتب میں بھی مروی ہے)
ایک موقعے پر ایک عورت نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر آپ فلاں غزوہ سے کام یاب و بامراد واپس لوٹے تو آپ کے سامنے دف بجاؤں گی۔ حضوؐر نے فرمایا: اَوْ فِیْ بِنَذْرِکَ ’’اپنی نذر پوری کرلو۔‘‘ (سنن ابی داؤد، کتاب الأیمان والنذور، باب ما یومر بہ من الوفاء بالنذر، حدیث: ۳۳۱۲)
معصیت کی نذروں پر عمل نہ کرنے کے سلسلے میں متعدد احادیث مروی ہیں ۔ حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لاَ وَفَائَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃٍ وَلاَ فِیْمَا لاَ یَمْلِکُ الْعَبْدُ۔(صحیح مسلم، کتاب النذر، باب لا وفاء لنذر فی معصیۃ اللّٰہ، حدیث: ۳۲۹۰)
’’کوئی شخص کسی معصیت کی نذر مانے یا کسی ایسی چیز کی نذر مانے، جو اس کے اختیار میں نہ ہو تو اسے پورا کرنا ضروری نہیں ۔‘‘
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
لاَ نَذْرَ فِیْ مَعْصِیَۃٍ وَ کَفَّارَتُہٗ کَفَّارَۃُ یَمِیْنٍ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الایمان والنذور، باب من رای علیہ کفارۃ اذا کان فی معصیۃ، حدیث: ۳۲۹۰)
’’معصیت کی نذر نہیں پوری کی جائے گی، اس کا وہی کفارہ ہے، جو قسم کا ہے۔‘‘
ایک عورت حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میں نے نذر مانی ہے کہ اپنے بیٹے کو قربان کردوں گی۔ انھوں نے جواب دیا۔ بیٹے کو قربان نہ کرو اور قسم کا کفارہ ادا کرو۔
(موطا امام مالک، کتاب النذور والأیمان، باب مالا یجوز من النذور فی معصیۃ اللّٰہ، ۱۹۷۴)
نذر کی اقسام، شرائط، احکام اور دیگر جزئیات کتب ِ فقہ میں تفصیل سے مذکور ہیں ۔ ان سے رجوع کرنا چاہیے۔