جواب
(۱) نماز جمعہ میں دو رکعتیں فرض ہیں ۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک فرض سے قبل چار رکعتیں اور اس کے بعد چار رکعتیں سنت ہیں ۔ امام صاحبؒ کے شاگرد قاضی ابو یوسفؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک فرض کے بعد چار رکعتوں کے علاوہ دو رکعتیں مزید مسنون ہیں ۔ اس طرح کل رکعتیں بارہ ہوجاتی ہیں ۔
فقہ السنۃ میں یہ لکھا ہے کہ ’’جمعہ سے پہلے سنتوں کا پڑھنا نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔‘‘ یہ بات بے بنیاد نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے متعدد روایتیں نقل کی ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت ﷺ جمعہ میں فرض سے پہلے سنتیں پڑھا کرتے تھے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی تحریر کیا ہے کہ یہ تمام روایتیں ضعیف ہیں ۔(۱) دوسری طرف بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے فرض سے قبل سنتیں پڑھنے کی ترغیب دی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص جمعہ کے دن غسل کرکے مسجد آئے، پھر اسے جتنی توفیق ہو اتنی رکعتیں پڑھے، پھر خاموشی سے امام کا خطبہ سنے اور اس کے ساتھ نماز ادا کرے تو اللہ اس کی ایک ہفتہ اور مزید تین دنوں کی خطائیں بخش دیتا ہے۔(۲) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جمعہ میں فرض سے قبل چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔(۳)
احناف کے نزدیک نماز جمعہ ظہر کے مثل ہے اور چوں کہ ظہر میں فرض سے قبل چار رکعتیں مسنون ہیں ، اس لیے ان کی ادائی جمعہ میں بھی فرض سے قبل کرنی چاہیے۔ امام بخاریؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الجمعۃ میں ایک باب یہ منعقد کیا ہے: باب الصلاۃ بعد الجمعۃ و قبلھا (جمعہ میں فرض کے بعد اور اس سے قبل نماز کا بیان) اس کے تحت انھوں نے جو حدیث روایت کی ہے اس میں ہے کہ ’’نبی ﷺ ظہر سے قبل چار رکعتیں اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور جمعہ کے بعد گھر جاکر دو رکعتیں ادا کرتے تھے۔‘‘ اس سے شارحین نے یہ استنباط کیا ہے کہ امام بخاری کے نزدیک جمعہ اور ظہر کا حکم یکساں ہے۔ ظہر کی طرح جمعہ سے قبل بھی چار رکعتیں پڑھنی چاہئیں ۔(۴)
(۲) نماز جمعہ کی مشروعیت کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ آبادی کے تمام افراد ایک دن ایک جگہ اکٹھا ہوں اور باہم ملاقات کرکے ایک دوسرے کے احوال سے باخبر ہوں ۔ ان کا ہفتہ میں ایک بار اکٹھا ہونا آسان تھا، اس لیے اس کا حکم دیا گیا(۵) اسی بنا پر فقہاء متقدمین کی رائے تھی کہ ایک شہر میں عام حالات میں ایک ہی جگہ نماز جمعہ ہوسکتی ہے۔ دیہاتوں میں جمعہ کی اجازت نہ تھی اوروہاں رہنے والوں کو حکم تھا کہ اگر انھیں جمعہ کی نماز پڑھنی ہے تو شہر آئیں ۔ لیکن بعد میں حالات بدلے تو فقہا نے شہر میں ایک سے زائد مقامات پر نماز کی اجازت دے دی۔ چنانچہ البدائع میں امام کرخیؒ سے مروی ہے کہ قاضی ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک ایک سے زائد مقامات پر جمعہ کی نماز ہوسکتی ہے۔ (۱)
موجودہ دور میں شہروں اور دیہاتوں میں آبادیاں بہت پھیل گئی ہیں ، لوگوں کی مصروفیات بڑھ گئی ہیں ، ایک جگہ تمام لوگوں کے اکٹھا ہونے میں طرح طرح کی زحمتیں ہیں ، بازاروں میں جمعہ کے دن بھی دوکانیں کھلی رہتی ہیں ۔ اور بھی دیگر بہت سے مصالح اور مسائل ہیں ، اس لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ مختلف مساجد میں جمعہ کی نماز ہو اور لوگ اپنی سہولت سے قریب کی مسجد میں نماز ادا کرلیں ۔ اسی طرح نماز کا وقت مختلف مساجد میں الگ الگ رکھاجائے تو بھی نمازیوں کو سہولت ہوگی۔
(۳) اجتماعی دعا کے موضوع پر الگ سے جواب دیا جاچکا ہے۔ اسے ملاحظہ کرلیں ۔