جواب
:وتر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پابندی سے ادا کی ہے اورسفروحضر میں ہمیشہ اس کا اہتمام کیا ہے اوردوسروں کوبھی اسے پابندی سے ادا کرنے کی تاکید کی ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا :
یَا اَہْلَ القُرْآنِ اَوْ تِرُوْا ، فَاِنَّ اللہَ وِتْرٌ یُحِبُّ الوِتْرَ
(ابوداؤد۱۴۱۶، ترمذی۴۵۳)
’’اے قرآن والو!وترپڑھو۔ اس لیے کہ اللہ وتر ہے اوروتر کوپسند کرتا ہے ‘‘۔
وتر کا وقت نماز عشا ء کے بعد اورطلوع فجر سے قبل ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعیین فرمائی ہے ۔(ترمذی۴۵۲، ابن ماجۃ۱۱۶۸) ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: اَوْتِرُوْا قَبْلَ اَنْ تُصْبِحُوْا (مسلم۷۵۴) ’’وتر کی نماز صبح ہونے سے قبل پڑھ لیا کرو‘‘۔
وتر کا مطلب ہے طاق رکعت ، یعنی رات میں جتنی رکعتیں بھی پڑھی جائیں ، ان کے ساتھ آخر میں ایک رکعت مزید شامل کرکے رکعتوں کی تعداد طاق کرلی جائے ۔ اس سلسلے میں دواحادیث بنیادی ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
صَلَاۃُ اللَّیْلِ مَثْنٰی مَثْنٰی ،فَاِذَا اَرَدْتَ اَنْ تَنْصَرِفَ فَارْکَعْ رَکْعَۃً تُوْتِرُ لَکَ مَاصَلَّیْتَ (بخاری۹۹۳، مسلم۷۴۹)
’’رات کی نماز دو دو رکعتیں پڑھو۔ پھر جب فارغ ہونا چاہوتو ایک رکعت مزید پڑھ لو۔یہ تمہاری پڑھی ہوئی نماز کو وتر(طاق ) بنادے گی‘‘۔
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے سال (چاہے رمضان ہویا غیر رمضان) ہمیشہ رات میں گیارہ(۱۱) رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ اس کی تفصیل انھوں نے ان الفاظ میں بیان کی:
یُصَلِّیْ اَرْبَعًا فلَاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُوْلِہِنَّ،ثُمَّ یُصَلِّی اَرْبَعاً فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُوْلِہِنَّ ، ثُمَّ یُصَلِّی ثَلَاثًا
(بخاری۱۱۴۷، مسلم۷۳۸)
’’آپ ؐ چار رکعتیں پڑھتے تھے ۔ نہ پوچھو کہ وہ کتنی خوب صورت اور لمبی ہوتی تھیں ۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے تھے ۔ نہ پوچھو کہ وہ کتنی خوب صورت اورلمبی ہوتی تھیں ۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے‘‘۔
نماز وتر کے بارے میں کئی باتیں ملحوظ رکھنے کی ہیں :
(۱) حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رات میں نوافل (تہجد ) دودو رکعت پڑھنی چاہیے۔ آخر میں ایک رکعت مزید پڑھ لینی چاہیے ، تاکہ نوافل کی تعداد طاق ہوجائے۔
(۲) حضرت عائشہؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ تہجد کی نماز آٹھ رکعت (دو مرتبہ چار چار رکعت ایک سلام سے ) پڑھتےتھے ۔ پھر وتر پڑھتےتھے ، جوتین رکعت ہوتی تھی۔
(۳) نماز وتر کی کتنی رکعتیں ہیں ؟ اس سلسلےمیں متعدد احادیث منقول ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کم سے کم تعداد ایک رکعت اورزیادہ سے زیادہ گیارہ(۱۱) رکعتیں ہیں ۔
(۴) تین رکعت وتر پڑھنے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں : ایک یہ کہ دو رکعت پر سلام پھیر دیا جائے، پھر ایک رکعت ادا کی جائے ۔(یعنی دو تشہد اوردو سلام کے ساتھ) دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تینوں رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھی جائیں ۔ دو رکعت کے بعد تشہد میں پڑھا جائے۔پھرتیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوا جائے اورتشہد اور درود ابراہیمی پڑھنے کے بعد سلام پھیرا جائے۔ (یعنی دو تشہد اور ایک سلام کے ساتھ)
یہ دونوں طریقے درست ہیں ۔ امام ابوحنیفہ ؒ نے دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے اور دیگر ائمہ نے پہلا طریقہ۔
(۵) حضرت عائشہؓ کی روایت کے الفاظ ہیں : ثُمَّ یُصَلِّی ثَلَاثًا(پھر آپؐ تین رکعتیں پڑھتے تھے ) اس سے اشارہ ملتا ہے کہ آپ ؐ تین رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے ۔ اگر دو سلام سے تین رکعتیں پڑ ھنے کی بات ہوتی تو حضرت عائشہؓ اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتیں :’’ پھر آپؐ دورکعت پڑھتے تھے ، پھر ایک رکعت پڑھتے تھے‘‘۔
(۶) حضرت ابی بن کعب ؓ کی روایت میں تواس کی صراحت موجود ہے ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سورۂ اعلیٰ ، دوسری رکعت میں سورۂ کافرون اورتیسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھتے اورآخر میں سلام پھیرتے تھے ۔ (یعنی تینوں رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے ۔ ) (سنن نسائی۱۷۰۱)
(۷) متعدد صحابۂ کرام، مثلاً حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ وہ وترکی تین رکعتیں ایک سلام سے پڑھا کرتے تھے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی۹؍۲۸۲، حدیث۹۴۱۹، مجمع الزوائد۲؍۵۰۳، حدیث ۳۴۵۵، مصنف عبد الرزاق ۳؍۲۶، حدیث۴۶۵۹، مصنف ابن ابی شیبۃ۲ ؍ ۹۰۔۹۱، حدیث نمبر۶۸۳۴، ۶۸۴۰)
سوال میں جس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہےوہ ان الفاظ میں مروی ہے:
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَا تُوْتِرُوْا بِثَلاَثٍ ، اَوْتِرُوْا بِخَمْسٍ اَوْسَبْعٍ ، وَلاَ تَشَبَّہُوْا بِصَلاَۃِ الْمَغْرِبِ
’’وتر تین رکعتیں نہ پڑھو، بلکہ پانچ یا سات رکعتیں پڑھو اوراسے مغرب کے مشابہ نہ بناؤ‘‘۔
یہ حدیث سنن دار قطنی(۲؍۱۴۷)، صحیح ابن حبان (۲۴۲۹) اور التلخیص الحبیر للعسقلانی (۲؍۴۹۶) وغیرہ میں مروی ہے اوراس کی سند صحیح ہے ۔ اس کے پہلے ٹکڑے کا متبادر مفہوم درست نہیں ہے ، اس لیے کہ متعدد دیگرصحیح احادیث میں تین رکعت وتر پڑھنے کی اجازت دی گئی ہیں ۔ اس کا یہ مفہوم ہوسکتا ہے کہ جب رات میں تہجد کی نماز اوراس کے بعد وتر پڑھنا چاہوتو کم ازکم پانچ (۵) یا سات(۷) رکعتیں پڑھو۔
مذکورہ حدیث کے دوسرے ٹکڑے میں کہا گیا ہے کہ وتر کی نماز کومغرب کے مشابہ نہ بناؤ۔ اس سے یہ مطلب نکالنا کہ وتر کی تین رکعتیں ایک سلام سے پڑھنے سے منع کیا گیا ہے ، درست نہیں ۔ اس کے دوسرے مطلب بھی ہوسکتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہ وتر کی تیسری رکعت میں بھی سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی سورت ملاؤ ، تاکہ مغرب اوروتر میں فرق ہوجائے۔ چنانچہ احادیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی تینوں رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی سورت بھی پڑھتے تھے ، یا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ وتر میں دُعائے قنوت بھی پڑھو،تاکہ مغرب اور وتر میں فرق ہوجائے۔
نماز وتر ہو یا کوئی دوسری نماز، اس کی ادائیگی کے طریقے میں جومعمولی فرق پایا جاتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث او رصحابۂ کرام کے آثار سے ثابت ہے ۔ اس لیے کسی ایک طریقے کو در ست اور دوسرے طریقوں کو غلط قرا ر دینا مناسب نہیں ہے۔ خواتین کی دینی مجلسوں میں عموماً یہ بات ملحوظ نہیں رکھی جاتی، جس کی بناپر انتشار پیدا ہوتا ہے ۔ اس سے بچنا چاہیے ۔