جواب
مذکورہ بالا دونوں مراسلوں سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مساجد میں نمازوں یا دینی اجتماعات میں شرکت کے لیے عورتوں کی حاضری کے مسئلے پر مسلم معاشرے میں کس قدر بے چینی پائی جاتی ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو مساجد میں عورتوں کے جانے کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور اس عمل کو امت کے لیے فتنہ قرار دیتے ہیں ، جب کہ کچھ لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں اور اسے مسلمان خواتین کے لیے دینی اعتبار سے مفید قرار دیتے ہیں ۔ اس مسئلے پر جذبات سے بالا تر ہوکر سنجیدگی کے ساتھ، ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔
۱- احادیث سے ثابت ہے کہ عہد نبوی میں خواتین رات میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جایا کرتی تھیں ۔ اس سلسلے میں ان کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ مسجد نبوی کا ایک دروازہ ان کے لیے خاص کردیا گیا تھا۔ ان کی صفوں اور مردوں کی صفوں کے درمیان فاصلہ رکھا جاتا تھا اور درمیان میں بچوں کی صفیں ہوتی تھیں ۔ نماز کے بعد موقع دیا جاتا تھا کہ عورتیں پہلے نکل جائیں ۔ مرد کچھ دیر کے بعد نکلتے تھے۔ عورتوں کو تاکید تھی کہ وہ خوش بو لگا کر یا زیب و زینت اختیار کرکے مسجد میں نہ جائیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی بعض لوگ عورتوں کا مسجد جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں تاکید کی کہ اپنی پسند و ناپسند کو معیار بنا کر عورتوں کو مسجد جانے سے نہ روکیں ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لاَ تَمْنَعُوْا اِمَائَ اللّٰہِ مَسَاجِدَ اللّٰہِ۔ (سنن ِابی داؤد: ۵۶۵)
’’اللہ کی باندیوں (خواتین) کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو۔‘‘
یہ حدیث احمد، عبد الرزاق، دارمی، ابن خزیمہ اور بیہقی نے بھی روایت کی ہے۔
حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِذَا اسْتَاْذَنَکُمْ نِسَائُ کُمْ بِاللَّیْلِ اِلَی الْمَسَاجِدِ فَاْذَنُوْا لَھُنَّ۔
(بخاری: ۸۶۵، مسلم: ۴۴۲)
’’اگر تمھاری عورتیں رات کو مساجد میں جانے کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو انھیں اجازت دے دو۔‘‘
دوسری طرف بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے عورتوں کے لیے اپنے گھروں میں فرض نمازوں کی ادائی کو بہتر قرار دیا ہے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خَیْرُ مَسَاجِدِ النِّسَآئِ قَعْرُ بُیُوْتِھِنَّ۔
(احمد: ۶/۲۹۷، ابن خزیمہ: ۱۶۸۳، حاکم: ۱/۲۰۹، بیہقی: ۳/۱۳۱)
’’عورتوں کے لیے نماز ادا کرنے کی بہترین جگہ ان کے گھروں کا اندرونی حصہ ہے۔‘‘
بل کہ بعض احادیث میں آپؐ نے دونوں باتیں ایک ساتھ فرمائی ہیں ۔ ایک طرف آپؐنے مردوں کو روکا کہ عورتوں پر اپنی مرضی نہ تھوپیں ، دوسری طرف عورتوں سے فرمایا کہ ان کا گھروں ہی میں نماز پڑھ لینا زیادہ بہتر ہے۔ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
لاَ تمْنَعُوْا نِسَآئَ کُمُ الْمَسَاجِدُ وَ بُیُوْتُھُنَّ خَیْرٌ لَّھُنَّ۔
(ابو داؤد: ۵۶۷، ابن خزیمہ: ۱۶۸۴، احمد: ۲/۷۲)
’’اپنی عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکو، لیکن ان کے گھر ہی ان کے لیے بہتر ہیں ۔‘‘
کتب حدیث میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ حضرت عمر بن الخطابؓ کی زوجہ برابر مسجد میں فجر اور عشاء کی نمازیں باجماعت ادا کرنے کے لیے جایا کرتی تھیں ۔ کسی نے ان سے کہا: عمرؓ عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے ہیں ، پھر آپ ایسا کیوں کرتی ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا: جب تک وہ مجھے صراحت سے منع نہیں کریں گے، میں جاتی رہوں گی۔ اس شخص نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ نے منع کرنے سے روکا ہے۔ پھر وہ کیوں منع کریں گے۔ (بخاری: ۹۰۰)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عورتیں اگر چاہیں تو باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جاسکتی ہیں ۔ اسی طرح وہ نماز تراویح میں بھی شریک ہوسکتی ہیں ۔
۲- عورتیں اگر مساجد میں جاکر نماز باجماعت میں شریک ہونے کی خواہش مند ہیں تو ان کے لیے خصوصی انتظامات کیے جانے چاہئیں ۔ مسجد کے شمال یا جنوب کے حصے میں دیوار کھڑی کرکے یا کوئی Partition کرکے یا موٹا پردہ لٹکا کر یا مسجد سے متصل کوئی کمرہ تعمیر کرکے اس حصے کو اس کے لیے مخصوص کیا جاسکتا ہے۔ مسجد کے مشرقی جانب اس سے متصل کسی کمرے میں بھی وہ نماز ادا کرسکتی ہیں ۔ بہ شرطے کہ ایسا انتظام ہو کہ انھیں امام کی نقل و حرکت کا صحیح طریقے سے علم ہوتا رہے۔ بلا ضرورت صفوں کے درمیان فاصلہ رکھنا پسندیدہ نہیں ہے۔ البتہ بہ وقت ِ ضرورت اسے گوارا کیا جاسکتا ہے۔
۳- مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ کتنا فاصلہ ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں کوئی صریح نص نہیں ہے۔ فقہاء نے بعض وضاحتیں کی ہیں ۔ مثلاً انھوں نے لکھا ہے کہ اقتداء درست ہونے کے لیے مقتدیوں کو امام کی نقل و حرکت صحیح طور پر معلوم ہوتی رہے اور وہ کسی شک و شبہ میں نہ پڑیں ۔ اس معاملے میں بعض فقہاء نے مسجد اور غیر مسجد میں فرق کیا ہے۔ ان کے نزدیک میدان میں نماز پڑھنے کی صورت میں اگر کہیں دو صفوں سے زیادہ کا فاصلہ ہے تو پیچھے کے مقتدیوں کی نماز درست نہ ہوگی۔ (نماز عیدین اس سے مستثنیٰ ہے) مسجد میں اگر پیچھے نماز پڑھنے والے امام یا آگے کے مقتدیوں کو دیکھ رہے ہوں یا تکبیر سن رہے ہوں تو ان کی نماز صحیح ہوگی خواہ درمیان میں کتنا ہی فاصلہ ہو۔ (الموسوعۃ الفقیھۃ کویت ۶/۲۳، بہ حوالہ الفتاوی الہندیہ ۱/۸۸، مغنی المحتاج، ۱/۲۴۸)
۴- مسجد اگر دو منزلہ ہے تو اس کا گراؤنڈ فلور عورتوں کے لیے خاص کر دینا اور مردوں کے لیے فرسٹ فلور پر انتظام کرنا صحیح نہیں ۔ مسجد کا اصل حصہ گراؤنڈ فلور کا ہے۔ اس میں مردوں کی جماعت ہونی چاہیے۔ عورتوں کے لیے فرسٹ فلور یا اگر کسی مسجد میں تہہ خانہ ہو تو اسے خاص کیا جاسکتا ہے۔
۵- عورتوں کے لیے مخصوص دینی اجتماعات منعقد کیے جاسکتے ہیں ۔ عہد نبوی میں اس کی نظیر ملتی ہے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! زیادہ تر صرف مرد ہی آپ کی باتیں سنتے ہیں ۔ اس لیے آپؐ ہم عورتوں کے لیے ایک دن خاص کردیجیے۔ جس میں ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر استفادہ کرسکیں ۔ آپؐنے اس تجویز سے اتفاق کیا اور ان کے لیے ایک دن خاص کردیا۔ عورتیں اس دن اکٹھا ہوئیں اور آپؐ نے ان کے پاس جاکر انھیں وعظ و تلقین کی۔ (بخاری: ۱۰۱، ۱۲۴۹، ۷۳۱۰)
۶- خواتین کے یہ اجتماعات دیگر مناسب مقامات مثلاً لیکچر ہال، کمیونٹی سنٹر وغیرہ میں منعقد کیے جاسکتے ہیں اور مساجد میں بھی ان کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ مذکور بالا حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ عورتوں کا مخصوص اجتماع کہاں ہوا تھا؟ حدیث میں فی مکان کذا و کذا (فلاں مقام پر) کے الفاظ ہیں ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً وہ جگہ مسجد کے علاوہ کوئی اور تھی۔ لیکن دینی باتیں سننے کے لیے عورتوں کے مسجد جانے کی ممانعت کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے۔ حضرت عمر بن الخطابؓ کے عہد کا مشہور واقعہ ہے کہ انھوں نے مسجد نبوی میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! عورتوں کے مہر بہت زیادہ نہ رکھو۔ اگر یہ کوئی خوبی کی بات ہوتی تو نبی ﷺ ایسا ضرور کرتے، حالاں کہ آپؐ نے اپنی کسی بیوی یا بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں رکھا۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ اگر کوئی شخص اس سے زیادہ مہر رکھے گا تو یہ زائد رقم میں اس سے زبردستی لے کر بیت المال میں جمع کرادوں گا۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر عورتوں کی صف سے ایک طویل القامت عورت اٹھی اور اس نے سورۂ نساء کی آیت ۲۰ کا حوالہ دے کر کہا: ’’اے امیر المومنین! جب اللہ تعالیٰ نے مہر کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے تو آپ کون ہوتے ہیں ؟ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اپنی بات سے رجوع فرما لیا۔
(تفسیر ابن کثیر، ۱/۵۲۲، ۵۲۳)
یہ روایت ترمذی، ابن ماجہ اور احمد نے بھی نقل کی ہے۔
۷- یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ عورتوں کا کسی بھی صورت میں مسجد میں داخلہ جائز نہیں ہے۔ احادیث سے ثابت یہ ہے کہ عہد نبوی میں عورتیں نہ صرف نماز باجماعت کی ادائی کے لیے، بل کہ دوسرے کاموں کے لیے بھی مسجد جایا کرتی تھیں ۔ عہد نبوی میں ایک عورت کا کوئی گھر بار نہ تھا۔ اس نے اسلام قبول کیا تو اس کے لیے عارضی انتظام کے تحت مسجد نبوی میں خیمہ لگادیا گیا تھا (فَکَانَتْ لَھَا خِبَائٌ فِی الْمَسْجِدِ) امام بخاری (۴۳۹) نے اس روایت پر یہ ترجمۃ الباب قائم کیا ہے: باب نوم المرأۃ فی المسجد (اس چیز کا بیان کہ عورت مسجد میں سو سکتی ہے) ایک روایت میں ہے کہ ایک عورت مسجد میں جھاڑو لگایا کرتی تھی۔ اس کا انتقال ہوگیا تو لوگوں نے آں حضرت ﷺ کو اطلاع دیے بغیر اس کی تدفین کردی۔ بعد میں آپ کو پتا چلا تو آپؐ اس کی قبر پر تشریف لے گئے (بخاری: ۴۵۸- ۴۶۰) رفیدہ نامی ایک خاتون کو علاج معالجہ کی خاصی معلومات تھیں ۔ غزوۂ احزاب کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے لیے مسجد نبوی میں ایک خیمہ لگوادیا تھا اور حضرت سعد بن معاذؓ کے علاج کی انھیں ذمے داری سونپی تھی۔ (سیرۃ ابن ہشام، ۱۹۳۷ء، ۳/۲۵۸) غزوۂ احزاب کے بعد ایک دوسری خاتون حضرت کعیبۃ بنت سعدؓ کا بھی خیمہ مسجد نبوی میں نصب کیا گیا تھا اور انھیں زخمیوں کے علاج کی ذمے داری دی گئی تھی۔ (طبقات ابن سعد، ۶/۲۱۲)
البتہ یہ ملحوظ رہے کہ عورتوں کی مسجد میں حاضری پاکی کی حالت میں ہونی چاہیے اور یہ عورتوں کے ساتھ مخصوص نہیں ۔ مردوں کے لیے بھی ناپاکی کی حالت میں مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ۔
۸- گزشتہ سطور میں یہ بات آچکی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک طرف عورتوں کو مسجد جانے سے روکنے سے منع کیا ہے، دوسری طرف عورتوں کے لیے گھر ہی میں نماز پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ اس بنا پر احناف نے نماز باجماعت کے لیے مسجد جانا عورتوں کے لیے مکروہ کہا ہے۔ فقہ حنفی کی مشہور کتاب فتاویٰ عالم گیری میں ہے: ’’عورتوں کے لیے نماز باجماعت میں حاضری مکروہ ہے۔ ہاں بوڑھی عورت کے لیے فجر، مغرب اور عشاء میں اجازت ہے۔ آج کے دور میں فتویٰ یہ ہے کہ کراہت تمام نمازوں کے لیے ہے، اس لیے کہ فساد عام ہوگیا ہے۔ الکافی میں یہی مذکور ہے۔ یہی قول مختار ہے، جیسا کہ التبیین میں بیان کیا گیا ہے۔ (فتاویٰ عالم گیری، طبع دیوبند، ۱/۸۹) مذکورہ فتویٰ میں جس فساد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کی بنیاد ام المومنین حضرت عائشہؓ کے اس قول میں موجود ہے۔ وہ اپنے زمانے کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں : ’’اگر رسول اللہ ﷺ عورتوں کی وہ صورت حال دیکھ لیتے جو ہم نے دیکھی ہے تو آپ انھیں اسی طرح مسجد جانے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل نے اپنی عورتوں کو روک دیا تھا۔‘‘ (بخاری: ۸۲۹، مسلم: ۴۴۵)
۹- اس مسئلے میں غور اور فیصلہ کرتے وقت روح شریعت کو ضرور اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔ دین کا مزاج اجنبی مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط کو ناپسند کرتا ہے۔ ساتھ ہی عورتوں کے لیے پردے کے حدود متعین کرتا ہے۔ جن مساجد میں عورتوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہوں ہوں اور اختلاط کے مواقع مسدود کردیے گئے ہوں ، ان میں وہ پردہ اور دیگر شرعی حدود و قیود کے ساتھ نماز باجماعت کی ادائی کے لیے جاسکتی ہیں ۔ لیکن جن مساجد میں ایسا کوئی انتظام نہ ہو، ان میں انھیں جانے سے حتی الامکان احتراز کرنا چاہیے۔ اسی طرح پردہ اور عدم اختلاط کے بنیادی اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے مساجد میں عورتوں کے مخصوص اجتماعات کے انعقاد میں کوئی حرج نہیں ہے۔