جواب
اذان کی مشروعیت اصلاً نماز کا وقت ہوجانے کا اعلان کرنے کے لیے ہے۔ لیکن بعض دیگر مواقع کے لیے بھی اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔ اس معاملے میں شوافع کے یہاں زیادہ توسع ہے۔ انھوں نے نومولود کے کان میں اذان دینے کو مسنون عمل قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہ بعض مواقع پر (مثلاً آتش زدگی کے وقت، راستہ بھٹک جانے کی صورت میں یا مرگی زدہ شخص کے پاس) اذان دینے کو جائز کہتے ہیں ۔ مالکیہ اس عمل کو مکروہ اور بدعت قرار دیتے ہیں ۔ حنابلہ اور احناف کا معاملہ بین بین کا ہے۔ وہ اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔
اس موضوع پر ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جس کے یہاں کسی بچے کی ولادت ہو اور اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے اسے ام الصبیان (بچوں کی مرگی) کا مرض نہیں ہوگا۔‘‘ اسے ابو یعلی نے اپنی مسند میں اور بیہقی نے روایت کیا ہے، لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔
(تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی، مکتبہ اشرفیہ دیوبند ۵؍۸۹، فیض القدیر، منادی ۶؍۲۳۸)
البتہ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا عمل ثابت ہے۔ آپؐ کے آزاد کردہ غلام ابو رافع بیان کرتے ہیں : ’’میں نے دیکھا ہے کہ جب حسنؓ کی ولادت ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے کان میں اذان کہی‘‘ (ترمذی: ۱۵۱۴) امام ترمذی نے اس کی روایت کرنے کے بعد لکھا ہے: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ موجودہ دور کے مشہور محد ّث علامہ محمد ناصر الدین البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ نومولود کے کان میں اذان دینے کا عمل رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ لیکن اصطلاحی معنی میں اسے سنت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے کہ عہد نبوی میں بہت سے بچوں کی ولادت ہوئی، لیکن مذکورہ واقعہ کے علاوہ اور کسی موقع پر آپؐ کے اذان دینے کا تذکرہ روایتوں میں نہیں ملتا۔ صحابہ کرام سے بھی یہ عمل ثابت نہیں ہے۔ البتہ اسے مکروہ اور بدعت کہنا بھی صحیح نہیں معلوم ہوتا۔