جواب
نکاح کا رشتہ باہم الفت و محبت اور اعتماد کی بنیادوں پر استوار کیا جانا چاہیے۔ اس کے ذریعے دو انسان، جو بسا اوقات ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوتے ہیں ، ملتے ہیں اور ایک دوسرے کی رفاقت میں زندگی گزارنے کا عہد کرتے ہیں ۔ نیز ان کے ذریعے دو خاندانوں میں قریبی تعلقات پیدا ہوتے ہیں ، اس لیے اس کی استواری میں دھوکہ دہی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّی۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان:۱۰۲)
’’جس شخص نے دھوکہ دیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘
اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ ایک موقعے پر اللہ کے رسول ﷺ بازار میں نکلے۔ راستے میں ایک شخص غلّہ کا ایک ڈھیر لگائے بیچ رہا تھا۔ آپؐنے اس ڈھیر کے اندر اپنا ہاتھ ڈالا تو کچھ نمی محسوس ہوئی۔ آپؐ نے فرمایا: یہ کیا؟ غلّہ کے مالک نے بتایا کہ بارش میں کچھ غلّہ بھیگ گیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے اسے اوپر کیوں نہیں رہنے دیا کہ لوگوں کی نظر میں ہوتا۔ پھر آپؐ نے وہ بات فرمائی، جسے اوپر نقل کیا گیا ہے۔
امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں : ’’جب نبی ﷺ نے سامان فروخت کرنے والے پر اپنے سامان کا عیب چھپانا حرام قرار دیاہے تو نکاح کے معاملے میں عیب چھپانا کیوں کر جائز ہوسکتا ہے۔ (زاد المعاد، ۵/۱۸۵)
دوسری جانب یہ بھی ضروری ہے کہ نکاح طے کرنے سے قبل دونوں فریق ممکن حد تک تحقیقات کرلیں ۔ بسا اوقات جلد بازی، جذبات، بے جا اعتماد یا دیگر اسباب سے مکمل تحقیقات کے بغیر رشتہ کرلیا جاتا ہے، بعد میں ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں جن کی بنا پر رشتوں میں کشیدگی، تلخی اور تنازعہ پیدا ہوجاتا ہے جو بسا اوقات علیحدگی پر منتج ہوتا ہے۔ جب ہم زندگی کے ہر معاملے میں احتیاط، چھان پھٹک اور تحقیق کو ملحوظ رکھتے ہیں تو نکاح کی پائیداری اور استحکام کے مقصد سے اس معاملے میں بھی ضرور اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے ارشاد سے ہمیں اس سلسلے میں رہ نمائی ملتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
تَخَیَّرُوْا لِنُطَفِکُمْ۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح، باب الأکفاء حدیث: ۱۹۶۸، حسّنہ الألبانی)
’’اپنے نکاح کے لیے اچھے سے اچھا رشتہ تلاش کرو۔‘‘
اس تفصیل کی روشنی میں مذکورہ سوالوں کے جوابات درج ذیل ہیں :
(۱) اگر نکاح ہوجانے کے بعد انکشاف ہوکہ زوجین میں سے کسی میں کوئی ایسا عیب ہے، جس سے دوسرا فریق ناگواری محسوس کرتا ہے تو نکاح کو فسخ کیا جاسکتا ہے۔ فقہاء نے تفصیل سے ان عیوب کا تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے جنون، جذام اور برص کو ان مشترکہ عیوب میں شمار کیا ہے، جو زوجین میں سے کسی میں پائے جائیں تو ان کی بنیاد پر دوسرا فریق فسخِ نکاح کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں : ’’جس عورت کا نکاح ہو اور اسے برص، جنون یا جذام وغیرہ ہو، اس کے شوہر کو اختیار ہے، چاہے اس نکاح کو باقی رکھے، چاہے اسے طلاق دے دے۔‘‘
(سنن بیہقی، ۷/۲۱۵، مصنف عبد الرزاق:۱۰۶۷۷)
(۲) نکاح ہوجانے کے بعد اگر خلوت ہوگئی ہے تو عورت مہر کی مستحق ہے۔ حضرت علیؓ کے مذکورہ بالا فتویٰ میں آگے ہے: ’’اگر خلوت ہوگئی ہے تو عورت کو مہر ملے گا۔‘‘ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا ہے: ’’جس عورت کو جنون، جذام یا برص ہو اور اس کا رشتہ دھوکے سے کسی مرد سے کردیا جائے اور خلوت ہوجائے تو عورت مہر کی مستحق ہوگی اور مہر کی رقم اس کے ذمّے ہوگی، جس نے دھوکہ دیا ہے۔‘‘ (موطا امام مالک، کتاب النکاح، باب ماجاء فی الصداق والحباء، ۲۲۶۸، مصنف عبد الرزاق، ۱۰۶۷۹، سنن بیہقی، ۷/۲۱۴) اگر عورت اپنے ساتھ اپنے مائیکے سے جائیداد، مکان اور دوسری چیزیں لائی ہے تو طلاق کی صورت میں ان تمام چیزوں کو واپس کردینا چاہیے۔
(۳) علیحدگی کی صورت میں لڑکی والوں کی طرف سے تاوان وصول کرنے کی تدبیر کرنا مناسب نہیں ہے۔ رشتے کی ناپائیداری کی ذمے داری دھوکہ کھانے والے پر بھی عائد ہوتی ہے کہ کیوں نہیں اس نے پہلے تمام تحقیقات کیں ۔
یہ تو اس مسئلے کا فقہی اور قانونی پہلو ہوا۔ اس پر انسانی پہلو سے بھی غور کرنا چاہیے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نکاح کے وقت زوجین صحیح سالم ہوں ۔ بعد میں ان میں سے کوئی کسی بیماری کا شکار ہوجائے یا اس میں کوئی عیب پیدا ہوجائے۔ ایسی صورت میں فوراً طلاق اور علیحدگی کے بارے میں سوچنے سے قبل علاج معالجہ کرانے اور رشتے کو باقی رکھنے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرنی چاہیے۔