جواب
ولیمہ مسنون ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نکاح کیے سب میں ولیمہ کیا اور صحابۂ کرام کو بھی ولیمہ کا حکم دیا۔حدیث میں ہے کہ جب آپؐ کو علم ہوا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے نکاح کرلیا ہے تو آپؐ نے انہیں ولیمہ کرنے کی تاکید کی۔(بخاری۲۰۴۹، مسلم۱۴۲۷) آپؐ نے نکاح کا اعلان کرنے کا حکم دیا ہے۔(احمد۱۶۱۳۰) ولیمہ کے ذریعے یہ مقصد بھی حاصل ہوجاتاہے۔
عرف یہ ہے کہ ولیمہ شب زفاف کے بعد ہو۔عہد نبوی میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔بعد میں مختلف علاقوں میں بھی اسی کو رواج ملا۔ولیمہ اصلاً خوشی کا اظہار ہے اور خوشی کی تکمیل شبِ زفاف سے ہوتی ہے ۔اس لیے عام حالات میں ولیمہ شب زفاف کے بعد ہی کرنا چاہیے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اگر ضرورت ہوتو نکاح ہی کے دن کیاجاسکتا ہے۔ فقہا سے اس سلسلے میں مختلف اقوال مروی ہیں
احناف اورمالکیہ کے نزدیک ولیمہ شبِ زفاف کے بعد ہونا چاہیے۔علامہ ابن تیمیہؒ کی بھی یہی رائے ہے ۔شوافع کہتے ہیں کہ ولیمہ کا وقت نکاح کے بعد سے شروع ہوجاتاہے، البتہ بہتر ہے کہ شبِ زفاف کے بعد کیاجائے۔حنابلہ کی رائے ہے اور ایک قول احناف اور مالکیہ کا بھی یہی ہے کہ ولیمہ نکاح کے فوراً بعد کیاجاسکتا ہے۔(الموسوعۃ الفقہیۃ، کویت،۴۵؍۲۴۹)