جواب
اللہ کے رسولﷺ کے زمانے میں ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا تو آپؐ نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور طویل نماز پڑھی، پھر آپ نے ان کے سامنے خطبہ دیا، جس میں بتایا کہ جب کبھی ایسی صورت حال پیش آئے تو انہیں کیا کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا:
’’فَادْعُوْا اللّٰہَ، وَکَبِّرُوْا، وَصَلُّوْا، وَتَصَدَّقُوْا ‘‘ (بخاری۱۰۴۴)
’’ اللہ سے دعا کرو، اس کی کبریائی بیان کرو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔‘‘
اس حدیث میں چار کاموں کی ہدایت کی گئی ہے ۔ جب بھی کوئی غیر طبعی واقعہ پیش آئے، کوئی حادثہ ہو، آدمی کسی مصیبت کا شکار ہو، یا اجتماعی طور سے کوئی بلا عام ہو تو ان چار کاموں کا انفرادی اور اجتماعی طور پر اہتمام کرنا چاہیے ۔ علامہ طیّبی نے مذکورہ بالا حدیث کی تشریح میں لکھا ہے:’’ اس حدیث میں بلا دور کرنے کے لیے ذکر، دعا، نماز اور صدقہ کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘
(بہ حوالہ فتح الباری۲؍۵۳۱)
اذان کی مشروعیت اصلاً نماز کے اعلان کے مقصد سے کی گئی ہے، البتہ بعض دیگر کاموں کے لیے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے، مثلاً بعض احادیث میں نومولود کے کان میں اذان دینے کا ذکر ہے، آگ زنی کے وقت بھی اذان دینے کی بات کہی گئی ہے ۔
کیا وبا سے تحفظ کے لیے بھی اذان دی جاسکتی ہے؟ اس سلسلے میں علمائے متقدمین سے کوئی صراحت نہیں ملتی ۔معاصر علماء سے دونوں طرح کی رائیں منقول ہیں ۔
مفتی امجد علی ؒ کی کتاب ’بہار شریعت‘ میں ہے:
’’ وبا کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے۔‘‘
(بہار شریعت۱؍۴۶۶، فتاویٰ رضویہ مخرّجہ۵؍۳۷۰)
جب کہ مولانا رشید احمد لدھیانویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے اس کی شرعی حیثیت کا انکار کیا ہے:
’’ وبا کے وقت اذان دینا شرعاً ثابت نہیں ۔ اس کو سنت یا مستحب سمجھنا درست نہیں ۔‘‘ (احسن الفتاوی۱؍۳۷۵، فتاویٰ رشیدیہ۱۵۲)
میری رائے میں ایسے مواقع پر صرف انہی کاموں پر اکتفا کرنا چاہیے جو حدیث سے ثابت ہیں ، دوسرے کاموں سے احتراز کرنا چاہیے۔ چنانچہ وبائی مرض سے تحفّظ کے لیے ذکر، دعا، نماز اور صدقہ کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے ۔ انفرادی یا اجتماعی طور پر اذان دینے کی ضرورت نہیں ۔