جواب
وراثت کا تعلق کسي شخص کے انتقال سے ہے۔ جوں ہي وہ وفات پائے اس کي مملوکہ چيزيں شريعت کي بتائي ہوئي تفصيل کے مطابق اس کے شريعت ميں طے شدہ مستحق حصہ داروں ميں تقسيم ہوجاني چاہئيں ۔ اولاد ميں سے کسي کے بالغ يا نابالغ ہونے سے کوئي فرق نہيں پڑتا۔ بلکہ اگر کسي شخص کي وفات کے بعد اس کا بچہ پيدا ہو تو وہ بھي مستحقِّ وراثت ہوگا۔ سوال ميں مذکور تفصيل کے مطابق وراثت کي تقسيم اس طرح ہوگي: بيوہ کو آٹھواں حصہ ملے گا، باقي کے دس حصے کيے جائيں گے۔ ايک ايک حصہ دونوں لڑکيوں ميں سے ہر ايک کو اور دو دو حصے چاروں لڑکوں ميں سے ہر ايک کو ديئے جائيں گے۔ في صد ميں تقسيم اس طرح ہوگي:بيوي۵ء۱۲%، دو لڑکياں ۵ء۱۷%،(ہر لڑکي کو ۸ء۷۵%) چار لڑکے ۷۰%، (ہر لڑکے کو۵ء۱۷%)
جہاں تک ممکن ہو،وراثت کي تقسيم کسي شخص کے انتقال کے بعد جلد از جلد کر دینی چاہيے۔ اسے ملتوي رکھنے سے تنازعات اٹھنے کا انديشہ رہتا ہے اور دوسرے مسائل بھي پيدا ہوسکتے ہيں ۔يہ مناسب نہيں کہ اسے تمام بچوں کي شادي کے بعد تک کے ليے ٹالے رکھا جائے۔ اس ليے کہ شادي کے مصارف ہر موقع پر الگ الگ ہوں گے۔ اس بنا پراس کا امکان ہے کہ جس کا جو حصہ شريعت کي طرف سے مقرر کيا گيا ہے، اس سے کم يا زيادہ ملے۔
وراثت کي تقسيم ہوجائے اور ہر حصہ دار کو اس کا حق مل جائے، اس کے بعد ان ميں سے ہر لڑکے اور لڑکي کي اپني صواب ديدپر ہوگا کہ وہ اپني شادي ميں اپنے حصے کي دولت ميں سے کتنا خرچ کرے۔ اس موقع پر دوسرے بھائي بہنوں کے سامنے موقع رہے گا کہ وہ حسب حال اس کا تعاون کريں کہ يہ صلہ رحمي کا تقاضا ہے۔ البتہ ان ميں سے جو لوگ چاہيں ، تقسيم ہوجانے کے بعد وراثت ميں ملنے والے اپنے حصوں کو مشترک رکھ سکتے ہيں ۔
يہ خيال درست نہيں ہے کہ کسي شخص کے انتقال کے فوراً بعد اس کي وراثت کي تقسيم کو سماج ميں اچھي نظروں سے نہيں ديکھا جاتا، اس ليے اسے کچھ عرصے کے ليے ملتوي رکھنا چاہيے۔ سماج کے خوف سے اللہ تعاليٰ کي نافرماني سے بچنا چاہيے۔ قرآن مجيد ميں تقسيمِ وراثت کا حکم ديتے ہوئے ان لوگوں کو سخت وعيد سنائي گئي ہے جو اس ميں ٹال مٹول سے کام ليتے ہيں ، يا پوري وراثت پر قبضہ کرکے دوسرے مستحقين کو محروم کر ديتے ہيں ۔