وراثت کے بعض مسائل

,

(۴) ایک صاحب کا انتقال ہوا۔ ان کی وراثت میں ایک کھیت ہے، جس کی قیمت تیرہ (۱۳) لاکھ روپے ہے اور ایک گھر ہے، جس کی قیمت پانچ (۵) لاکھ روپے ہے۔ ان کی چار (۴) لڑکیاں اور تین (۳) لڑکے ہیں۔ والد اور والدہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ بیوی بھی وفات پا چکی ہیں۔ انھوں نے گھر کے ایک حصے میں کمرہ بنا کر اپنے ایک لڑکے کو پہلے ہی دے دیا تھا۔ باقی حصے میں ان کے دو (۲) لڑکے اور چار(۴) لڑکیاں رہتی ہیں۔ والد اور والدہ کے علاج پر دو(۲) لڑکوں نے ساڑھے چار لاکھ روپے خرچ کیے تھے۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ انھیں وہ رقم الگ سے ملے۔ براہِ کرم واضح فرمائیں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے گھر اور کھیت میں سے کس کو کتنی رقم ملے گی؟

جواب

وراثت کے جو احکام قرآن مجید میں مذکور ہیں ان کے مطابق اگر کسی شخص کا انتقال ہو اور اس کے ورثہ میں صرف اس کے تین (۳) لڑکے اور چار (۴) لڑکیاں ہوں تو لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْنِ۔( النساء۱۱)(مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔) کے اصول کے مطابق کل مالِ وراثت کے دس (۱۰) حصے کیے جائیں گے۔ ہر لڑکے کو دو دو حصے اور ہر لڑکی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ دوسرے الفاظ میں، ہر لڑکے کا حصہ بیس فی صد اور ہر لڑکی کا حصہ دس فی صد ہوگا۔

اگر باپ اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کی چیزیں اولاد میں تقسیم کررہا ہو تو شریعت کا منشا یہ ہے کہ وہ سب کو برابر دے۔

اگر کسی شخص نے اپنے گھر کا کوئی حصہ اپنے ایک بیٹے کو رہنے کے لیے دے دیا ہو تو دیکھا جائے گا کہ اس نے اسے ہبہ کردیا تھا اور اس کا مالک بنا دیا تھا یا نہیں۔ اگر ہبہ کردیا ہو تو وہ لڑکا اس کا مالک سمجھا جائے گا اور گھر کے اُس حصے کو مالِ وراثت میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ باقی مالِ وراثت کی تقسیم ہوگی تو تمام ورثہ کے ساتھ وہ لڑکا بھی اپنا حصہ پائے گا۔

والد اور والدہ کی زندگی میں ان کے علاج پر لڑکوں نے جو کچھ خرچ کیا ہو، مالِ وراثت میں سے اس کا تقاضا کرنا درست نہیں ہے۔ لڑکوں نے والدین کی جو کچھ خدمت کی ہے، انھیں اپنی کمائی میں سے جو کچھ دیا ہے اور ان کے علاج معالجہ پر جو کچھ خرچ کیا ہے اس کا شمار حسنِ سلوک میں ہوگا اور اس پر وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر کے مستحق ہوں گے۔