وراثت کے بعض مسائل

,

(۷) ایک شخص کا انتقال ہوا۔ اس کے وارثین میں اس کی بیوہ اور دو بہنیں ہیں۔ ان کے علاوہ تین (۳) خالہ زاد بھائی اور چھ (۶)چچا زاد بھائی ہیں۔

اس کے شرعی وارث کون بنیں گے؟ اور کس کو کتنا حصہ ملے گا؟

جواب

قرآن مجید میں تقسیم ِ وراثت کی تفصیلات مذکور ہیں اور مستحقین ِ وراثت کے حصے بھی بیان کر دیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ۝۰ۚ      (النساء۱۲)

’’اور عورتوں کو ایک چوتھائی ملے گا، اگر تمھاری کوئی اولاد نہ ہو۔‘‘

فَاِنْ كَانَتَا اثْنَـتَيْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَ۝۰ۭ      (النساء۱۷۶)

’’اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حق دار ہوں گی۔‘‘

اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے

أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِی فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ

(بخاری ۶۷۳۷، مسلم۱۶۱۵)

’’وراثت اصحاب الفرائض کو دو، اس کے بعد جو بچے وہ قریب ترین مرد رشتے دار کا ہے۔‘‘

صورتِ مسئولہ میں بیوی کا حصہ چوتھائی(25%)اور دو بہنوں کا حصہ دو تہائی (66.7%)ہے۔ باقی (8.3%) چچا زاد بھائیوں کو ملے گا۔