ورثہ کے حق میں وصیت کو رجسٹرڈ کروانا

 میری عمر اس وقت پچہتر (75) برس ہے۔ میری ملکیت میں دو عدد مکانات ہیں۔ میرا ایک لڑکا اور پانچ لڑکیاں ہیں۔ سب شادی شدہ ہیں۔ اہلیہ بھی با حیات ہیں۔ میں نے مکانوں کی مالیت نکال کر دو برس قبل بچوں میں انھیں اس طرح تقسیم کر دیا ہے کہ پانچ جدید تعمیر شدہ فلیٹ ہر ایک لڑکی کے نام، پچیس برس قبل تعمیر شدہ مکان لڑکے کے نام، دو دکانیں اہلیہ کے نام، سرکاری دفتر سے وصیت نامہ رجسٹرڈ کرا دیا ہے، جس میں لکھا ہے کہ میرے اور میری اہلیہ کی وفات کے بعد ہی میری اولاد قابض و دخیل ہوگی۔

سوال یہ ہے کہ کیا درج بالا تقسیم اور وصیت نامہ شرعی نقطہ نظر سے درست ہے؟

جواب

کوئی زمین جائیداد دوسرے کو منتقل کرنے کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں :

ہبہ (gift): آدمی جس کو بھی اور جتنا بھی ہبہ کرنا چاہے، کر سکتا ہے۔ البتہ اولاد کو ہبہ کرنے کے سلسلے میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ عام حالات میں سب کو برابر دینا چاہیے تاکہ کسی کو شکایت نہ ہو۔

وصیت (will): اس کے سلسلے میں دو ہدایتیں بنیادی ہیں : ایک یہ کہ ورثہ (جن کو وراثت میں حصہ لینا ہو) کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ دوسرے یہ کہ کسی کو مال کے ایک تہائی (1/3) حصے سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جا سکتی۔

فقہا نے ورثہ کے حق میں وصیت کے جواز کی ایک صورت نکالی ہے کہ ورثہ میں سے جس کا جتنا حصہ ہے، اتنے کی صراحت کرکے اسے وصیت کی شکل میں رجسٹرڈ کرایا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ اس سے نہ کسی وارث کو زیادہ ملتا ہے نہ کسی کی حق تلفی ہوتی ہے۔

آپ کے ورثہ میں یہ لوگ ہیں : اہلیہ، ایک لڑکا، پانچ لڑکیاں۔

موجودہ صورت حال کے لحاظ سے آپ کی وراثت ان کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگی کہ اہلیہ کو آٹھواں حصہ (12.5) (النساء: 12)، اور باقی شدہ جائداد اولاد کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگی کہ لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دو گنا ملے گا۔ (النساء: 11)، بہ الفاظ دیگر اہلیہ کا حصہ 12.5%، لڑکے کا حصہ 25% اور لڑکیوں کا حصہ 62.5% ہوگا۔ ہر لڑکی کو 12.5% ملے گا۔

آپ کی اہلیہ کے انتقال کے بعد ان کا حصہ اور ان کی ملکیت کی دیگر چیزیں بھی اولاد کے درمیان تقسیم ہو جائیں گی۔

آپ نے جو وصیت نامہ رجسٹرڈ کرایا ہے اس میں یہ لکھوایا ہے کہ آپ کی اور آپ کی اہلیہ کی وفات کے بعد آپ کے بچے اپنے حصوں کے مالک سمجھے جائیں گے۔ گویا آپ نے اپنی کل پراپرٹی کی وصیت اپنی اہلیہ کو اور ان کی وفات کے بعد اپنے بچوں کو کی، یہ درست نہیں ہے۔ آپ کی وفات کے بعد بیوہ اور بچوں میں سے جس کا جتنا حصہ ہے وہ اس کو مل جانا چاہیے۔ اس میں کسی طرح کی تاخیر کا حیلہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔

November 2023