جواب
نکاح کے موقع کا ایک اہم عمل ولیمہ ہے۔ یہ اصلاً خوشی کا اظہار ہے۔ نکاح کے نتیجے میں ایک اجنبی مرد اور عورت یکجا ہوتے ہیں اور خاندان وجود میں آتا ہے۔ دو خاندان جڑتے ہیں اور ان کے درمیان قریبی تعلقات استوار ہوتے ہیں ۔ یہ نہ صرف نئے جوڑے کے لیے، بلکہ پورے خاندان کے لیے بہت خوشی کا موقع ہوتا ہے، اس کے اظہار کے لیے ولیمہ کیا جاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ سے ولیمہ ثابت ہے۔ آپ نے جتنے نکاح کیے ان کے بعد ولیمہ کیا اور صحابۂ کرام کو بھی ان کے نکاح کے بعد ولیمہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے نکاح کیا تو آپ ﷺنے رشاد فرمایا:
أوْلِمْ وَ لَو بِشَاۃٍ (بخاری۳۷۸۱، مسلم۱۴۲۷) ’’ ولیمہ کرو، چاہے ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘
اسی لیے ولیمہ کو مسنون یا مستحب کہا گیا ہے۔
ولیمہ کا لغوی معنیٰ ہے ’اجتماع‘، یعنی میاں بیوی کا جمع ہونا۔ اس لحاظ سے ولیمہ کا صحیح وقت بیوی کی رخصتی اور شبِ زفاف، یعنی میاں بیوی کی ملاقات کے بعد کا ہے۔ بہتر ہے کہ شبِ زفاف کے اگلے دن ولیمہ کیا جائے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت زینب بنت جحش ؓسے نکاح کے اگلے دن ولیمہ کیا تھا۔ (بخاری۵۴۶۶) ولیمہ ایک سے زائد بار یا ایک سے زائد دن کیا جاسکتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت صفیہ بنت حییؓ سے نکاح کے بعد تین دن تک برابر آپ نے ولیمہ کیا تھا۔
بعض علاقوں میں نکاح اور رخصتی کے درمیان خاصا وقفہ رکھا جاتا ہے۔ بسا اوقات یہ وقفہ کئی برس کا ہوتا ہے۔ اس صورت میں کیا نکاح کے بعد ولیمہ کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ولیمہ یوں تو رخصتی کے بعد مسنون ہے، لیکن نکاح کے بعد بھی اس کی گنجائش ہے۔
بعض حضرات جو یہ تحریک چلا رہے ہیں کہ نکاح کے فوراً بعد ولیمہ کردیا جائے، اس کا سبب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آج کل نکاح کی تقریب کے بعد لڑکی والوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سماجی رسوم کی وجہ سے وہ ایسا کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ زیر بار ہوجاتے ہیں ۔ ان کو اس سے بچانے کا طریقہ یہ ہوسکتاہے کہ نکاح کے فوراً بعد، یعنی رخصتی سے قبل، لڑکے والوں کی طرف سے ولیمہ کردیا جائے۔ میرے نزدیک یہ طریقہ درست نہیں ۔ ایک غلط کام سے روکنے کے لیے غیر مسنون طریقہ کیوں اختیار کیا جائے؟ غلط رسوم سے لڑکے والوں کو روکنا چاہیے اور لڑکی والوں کو بھی۔ نکاح کے موقع پر دعوت کا اہتمام کرنا لڑکی والوں کی ذمے داری نہیں ہے۔ نکاح کی تقریب سادگی سے انجام دی جانی چاہیے۔ البتہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سماجی قدروں کو بھی متاثر کررہے ہیں ۔ تقریب نکاح میں شرکت کے لیے رشتے دار دور دور سے آتے ہیں ۔ آمد و رفت کے ٹکٹ بہت پہلے سے بک کرائے جاتے ہیں ۔ ممکن ہے، نکاح کے دن ہی واپس جانا بعض رشتے داروں کی مجبوری ہو۔ اس بنا پر اگر نکاح کے دن ہی لڑکے والے ولیمہ کرنا چاہیں تو اس کی گنجائش ہے۔ مسنون طریقہ اگرچہ رخصتی اور شبِ زفاف کے بعد ولیمہ کا ہے، لیکن رخصتی سے قبل ولیمہ کرنا ناجائز نہ ہوگا۔
ولیمہ رخصتی کے کتنے دنوں کے بعد تک کیا جاسکتا ہے؟ اور اس کی آخری حد کیا ہے؟ بعض کتب فقہ میں اس کی مدّت تین دن بیان کی گئی ہے، لیکن یہ تحدید درست نہیں معلوم ہوتی۔ اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے، جس کا مضمون یہ ہے:
الوَلِیْمَۃُ أوَّلَ یَومٍ حَقٌّ، وَ الثَّانِیَ مَعرُوْفٌ، وَالیَومَ الثَّالِثَ سُمْعَۃٌ وَّ رِیَاءٌ (ابو داؤد۳۷۴۵، ترمذی۱۰۹۷)
’’ولیمہ پہلے دن برحق ہے، دوسرے دن عرف ہے۔ تیسرے دن نام و نمود اور ریا ہے۔ ‘‘
لیکن اس حدیث کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ حسب سہولت ولیمہ تیسرے دن کے بعد بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ خوشی کا اظہار ہے تو ظاہر ہے کہ اسے جلد از جلد کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا اسوہ بھی اس کے جلد کرنے کا ہے۔