جواب
اسلام میں کسی ضرورت مند کی مدد اورکسی پریشان حال کی پریشانی دور کرنے کوکارِ خیر قرار دیا گیا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے عمل کوصدقہ سے تعبیر فرمایا ہے۔( بخاری۱۴۴۵، مسلم۱۰۰۸)
فقہ اسلامی میں ’وکالۃ‘ کا ایک مستقل باب ہے ، جس میں کسی شخص کی نیابت اورترجمانی کرنے کوجائز قرار دیا گیا ہے اوراس کے احکام ومسائل بیان کیے گئے ہیں ۔
موجودہ عدالتی نظام میں کسی شخص کے لیے اپنے کسی کیس کی پیروی ممکن نہیں ہے ۔ اس کے لیے اسے کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنی پڑتی ہیں ۔ اس بنا پر وکالت ایک پیشہ (Profession) بن گیا ہے ۔ وکالت کی تعلیم حاصل کرنا اوراس پیشہ کو اختیار کرنا عام حالات میں جائز ہے ، البتہ ضروری ہے کہ وکیل اخلاقی حدود وآداب کی پابندی کرے ۔ یعنی
- وکیل اورموکل کے درمیان اجرت اورکار کردگی کی تفصیلات طے ہوں ۔
- وکیل اپنے موکل کا بہی خواہ ہو ، اس لیے کیس کو خواہ مخواہ طول دینے کی کوشش نہ کرے۔
- وکیل اپنے مؤکل کا ترجمان ہے ، اس لیے کیس سے متعلق کوئی بات اس سے نہ چھپائے ۔
- وکیل اپنے مؤکل کو جتانے کے لیے کسی بھی مرحلے میں جھوٹ کا سہارا نہ لے۔
- وکیل کواگر کسی مرحلے پر معلوم ہوجائے کہ اس کا موکل خطا کار ہے تو اس کو بے خطا ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے۔
- کوئی ایسا حق اپنے موکل کو دِلانے کی کوشش نہ کرے جو شریعت کے مطابق موکل کا حق نہ ہو (چاہے مُلکی قانون میں موکل اُسے لے سکتا ہو)
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستانی عدالتوں میں کسی مسلمان کے لیے وکالت کی پریکٹس کرنا جائز ہے ؟ بعض حضرات کو اس سلسلے میں اشکال ہے ۔ اس لیے کہ عدالتوں کا نظام جن قوانین پر مبنی ہے وہ انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں ، جب کہ مسلمانوں کوصرف اللہ کے قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور غیر اللہ کے قوانین پر عمل کرنے کوکفر، ظلم اورفسق کہا گیا ہے۔
یہاں غور کرنا چاہیے کہ یہ بات توصحیح ہے کہ مسلمان احکامِ اِلٰہی کا پابند ہے ۔ چنانچہ اسلامی ریاست میں کتاب وسنت کی روشنی میں قانون سازی ہوگی اورکوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکے گا جوکتاب وسنت سے ٹکراتا ہو ۔ لیکن جومسلمان غیر اسلامی ریاست میں رہتے ہوں وہ وہاں کے نظام کے عملاً پابند ہوں گے ۔ اگر یہ قوانین اسلامی تعلیما ت واقدار کے مطابق ہیں تو ٹھیک ہے ، لیکن اگر ان سے ٹکراتے ہیں تووہ ان میں تبدیلی کے لیے کوشش کریں گے ۔اس تفصیل سے واضح ہو ا کہ ایک مسلمان ہندوستانی عدالتوں میں وکالت کی پریکٹس کرسکتا ہے ۔ (شرائط اوپر بیان کی جاچکی ہیں ۔ )البتہ اگر ملک کا کوئی قانون اسلامی قانون سے ٹکراتا ہے تو وکیل کو چاہیے کہ وہ کوئی ایسا حق اپنے موکل کو نہ دِلائے جو اسلامی قانون کے مطابق اسے نہ مِل سکتا ہو۔
موجودہ دور میں ہندوستانی عدالتی نظام کے ذریعے، ازالۂ ظلم کی سعی ضروری ہوگئی ہے۔ کیوں کہ بسا اوقات مسلمانوں اور خاص طور پر مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات کے تحت نا حق پھنسا یا جاتا ہے ۔ اگر مسلمان ماہر وکلا موجود ہوں گے تو ان کے کیسوں کا دفاع آسان ہوگا اوروہ دینی حمیت اورجذبے سےیہ کام کریں گے ۔