ہمارے قصبے میں ایک بہت قدیم قبرستان ہے۔ ابتدا میں یہ قصبے سے باہر تھا۔ آبادی بڑھنے کے بعد اب یہ قصبے کے درمیان میں آگیا ہے۔ پچاس برس سے اس میں تدفین نہیں ہورہی ہے۔ اطراف کی آبادی والے اس میں کوڑا کرکٹ اور گندگی پھینکتے ہیں۔ صفائی کا نظم بالکل نہیں ہے۔ اس بنا پر قصبے والوں اور انتظامیہ کو بہت پریشانی لاحق ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قبرستان کا اب کیا کیا جائے؟ اگر یہ جائز نہ ہو تو اس کے استعمال کی کوئی دوسری جائز صورت بتادیں۔ بڑی مہربانی ہوگی-
جواب
وقف کو عام حالات میں اسی کام میں استعمال ہونا چاہیے جس کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ اگر کسی کام میں اس کا استعمال ممکن ہو تو اس کے بجائے کسی دوسرے کام میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ فتاویٰ شامی میں ہے:
الواجب ابقاء الوقف علی ما كان علیه (رد المحتار علی الدّر المختار، ۶؍ ۵۸۹)
’’کوئی وقف جس کام کے لیے کیا گیا ہے، اسی میں اس کا استعمال ضروری ہے۔ ‘‘
البتہ اگر کوئی چیز جس کام کے لیے وقف کی گئی ہو، اس میں اس کا استعمال نہ ہو تو اسے ویران اور بے مصرف چھوڑ دینا مناسب نہیں، بلکہ اس کے قریب ترین مصرف میں اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: الموسوعۃ الفقھیۃ وزارۃ الاوقاف والشؤن الاسلامیة، کویت، جلد ۴۴، ص ۸۸۱ اور اس کے بعد)
کوئی قبرستان آبادی کے درمیان میں آجانے کی وجہ سے طویل عرصے سے ویران ہو، یہی نہیں، بلکہ اس میں مسلسل گندگی ڈالے جانے کی وجہ سے اطراف کے لیے اذیت کا باعث ہو تو اسے دوسرے کاموں میں لایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر وہاں عام آبادی کے لیے مدرسہ، اسکول، ہاسپٹل یا کوئی اور عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے مدینہ پہنچنے کے بعد جب مسجد نبوی کی تعمیر کرنی چاہی تو ایک زمین خریدی گئی۔ اس میں کچھ قبریں تھیں، انھیں ہم وار کردیا گیا اور اس حصے کو بھی شامل کرکے پوری زمین پر مسجد بنائی گئی۔ (بخاری: ۸۲۴، مسلم: ۴۲۵)
January 2024