ٹیسٹ ٹیوب تکنیک کے ذریعے استقرار ِحمل

ایک صاحب کی شادی کو تین سال ہوچکے ہیں ، لیکن اب تک وہ بچے سے محروم ہیں ۔ میاں بیوی دونوں نے اپنا ٹیسٹ کروایا ہے، دونوں میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ پھر بھی استقرار ِ حمل نہیں ہوسکا ہے۔ اب کسی نے انھیں مشورہ دیا ہے کہ وہ بچہ حاصل کرنے کے لیے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی تکنیک اختیار کریں ۔ بہ راہ کرم آگاہ فرمائیں ۔ کیا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی تکنیک اختیار کرنا شرعی اعتبار سے جائز ہے؟
جواب

تخلیق ِ انسانی کا عمل کس طرح انجام پاتا ہے اس کی طرف قرآن کریم کی ایک آیت میں یوں اشارہ کیا گیا ہے:
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ صلے ق (الدہر: ۲)
’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے۔‘‘
یہ مخلوط نطفہ مرد کے مادۂ منویہ (Sperm)اور عورت کے بیضہ (Ovum)کے اتصال سے ترکیب پاتا ہے۔ دونوں کا اتصال رحم (Uterus) کے بالائی دونوں سروں پر پائے جانے والے ٹیوب (جسے قاذفین (Fallopian tubes)کہتے ہیں ) میں ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں عمل بار آوری (Fertilization) انجام پاتا ہے۔پھر یہ بار آور بیضہ مختلف مراحل سے گزر کر رحم میں داخل ہوتا ہے، جہاں جنین کی شکل میں اس کی نشو و نما ہوتی ہے۔
بسا اوقات جنسی اعضاء میں سے کسی عضو میں کوئی نقص ہوتا ہے جس کی بنا پر مرد کے مادۂ منویہ اور عورت کے بیضہ کا اتصال و امتزاج نہیں ہوپاتا، مثلاً مرد کے مادۂ منویہ کو خصیوں سے عضو تناسل تک لانے والی رگیں مسدود ہوگئی ہوں یا عورت کے خصیۃ الرحم سے کسی سبب سے بیضہ کا اخراج نہ ہو پارہا ہو، یا قاذفین پیدائشی طور پر موجود نہ ہوں یا کسی مرض کے سبب مسدود ہوگئے ہوں ۔ اس صورت میں مرد کا مادۂ منویہ اور عورت کا بیضہ حاصل کرکے دونوں کو ایک ٹیسٹ ٹیوب میں بار آور کیا جاتا ہے، پھر ایک متعین مدت کے بعد اس مخلوط نطفہ کو عورت کے رحم میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ اگر فطری طریقے سے استقرار ِحمل نہ ہو پارہا ہو تو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی تکنیک اختیار کی جاسکتی ہے، بشرطے کہ صرف شوہر کے نطفہ اور بیوی کے بیضہ کے اختلاط و امتزاج سے بار آوری کا عمل انجام دیا جائے۔
جدید میڈیکل سائنس نے اس تکنیک کو بہت ترقی دی ہے۔ مثلاً اگر شوہر کا مادۂ منویہ ناکارہ ہو تو کسی دوسرے کا مادۂ منویہ حاصل کرلیا جاتا ہے، اس کے لیے ’اسپرم بینک‘ قائم ہوگئے ہیں ۔ اگر بیوی کے خصیۃ الرحم سے بیضہ خارج نہ ہورہا ہو تو دوسری عورت سے بیضہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اگر بیوی کے رحم میں کسی خرابی کی بنا پر اس میں استقرار حمل اور جنین کی پرورش ممکن نہ ہو تو کسی دوسری عورت کا رحم اس کام کے لیے کرایہ پر لے لیا جاتا ہے۔ اس چیز نے عالمی سطح پر ایک منافع بخش انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اسلامی شریعت کی رو سے یہ تمام صورتیں ناجائز ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
لاَ یَحِلُّ لِامْرِیٍٔ یُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اَنْ یَّسْقِیَ مَاؤُہُ زَرْعَ غَیْرِہٖ ۔(۱)
’’کسی شخص کے لیے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو، جائز نہیں کہ اپنے پانی (مادۂ تولید) سے کسی دوسرے کے کھیت (یعنی غیر عورت) کو سیراب کرے۔‘‘
خلاصہ یہ کہ ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے عمل بار آوری کی صرف وہ صورت جائز ہے جس میں شوہر کے نطفہ اور بیوی کے بیضہ کو استعمال کیا گیا ہو۔