جواب
میں نے اپنے جواب میں لکھا تھا: ’’چہرہ پردہ میں شامل ہے یا نہیں ؟ اس سلسلے میں عہد صحابہ ہی سے اختلاف رہا ہے۔ بعض صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور بعد کے اہل علم بھی پردہ میں چہرہ کو شامل نہیں کرتے۔‘‘ ظاہر ہے، دوسرا گروہ جو امت کی تاریخ میں ہر دور میں رہا ہے، پردہ میں چہرہ کو بھی شامل کرتاہے۔ ہر گروہ کے اپنے دلائل ہیں ،جنھیں مہمل اور بے بنیاد قرار دے کر آسانی سے رد نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ چہرے کے پردے کے قائل ہیں ۔ انھوں نے تفہیم القرآن جلد چہارم (سورۂ احزاب) اور جلد سوم (سورۂ نور) کی تفسیر میں اور اپنی مشہور کتاب ’پردہ‘ میں تفصیل سے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے اور دلائل دیے ہیں ۔ دوسرے نقطۂ نظر کے حاملین کے دلائل قدیم تفاسیر، کتب ِ احکام القرآن، کتب فقہ اور بعض جدید اہل قلم کی تحریروں میں موجود ہیں ۔ (ان میں سے کچھ کا تذکرہ جناب سہیل مجاہد نے اپنے مضمون شائع شدہ زندگی نو مئی ۲۰۰۴ء میں کردیا ہے) ہر شخص کو اختیار ہونا چاہیے کہ دونوں نقطہ ہائے نظر میں ، جس کو صحیح سمجھتا ہو اسے اختیار کرلے۔ جماعت اسلامی کے ارکان و کارکنان اور متفقین مولانا مودودیؒ کی کسی فقہی رائے کے پابند نہیں ہیں ۔
جہاں تک راقم سطور کا تعلق ہے وہ بھی چہرہ کے پردہ کا قائل ہے۔ میں نے اپنے کتابچے ’اسلامی پردہ- کیا اور کیوں ؟‘ (شائع شدہ اسلامک بک فاؤنڈیشن، نئی دہلی) میں مذکورہ اختلاف کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جن احادیث میں چہرہ اور ہاتھ کھلا رہنے کی اجازت دی گئی ہے ان کا تعلق عورت کے ستر سے ہے نہ کہ حجاب سے، یعنی عورت چہرہ اور ہاتھ کے علاوہ اپنا پورا جسم شوہر کے علاوہ تمام لوگوں سے چھپائے گی، خواہ وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ۔ رہے نا محرم مرد تو ان کے سامنے وہ چہرہ اور ہاتھ بھی بلاضرورت نہیں کھولے گی۔‘‘ (ص:۳۹) لیکن جو لوگ چہرہ کے پردے کے قائل نہیں یا اس کا پردہ نہیں کرتے میں انھیں دین سے بے بہرہ اور مغربی تہذیب سے متاثر نہیں کہتا، اس لیے کہ مآخذ شریعت میں اس کی بنیادیں موجود ہیں ۔
پردہ کے سلسلے میں ، جو معتدل رویہ مطلوب ہے اس کی وضاحت محترم پروفیسر خورشید احمد مدیر ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور کے ایک جواب سے ہوتی ہے۔ انھوں نے اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں مذکورہ ماہ نامہ کے فروری ۲۰۰۳ء کے شمارہ میں لکھا تھا: ’’میرا اپنا تعامل ان علماء کی رائے کے مطابق ہے، جو چہرے کے حجاب کے قائل ہیں ، لیکن یہ زیادتی ہوگی کہ جو لوگ اپنے دلائل کے مطابق اپنے چہرے کے حجاب کے قائل نہیں ہیں انھیں اس زمرے میں ڈال دیا جائے، جو بے پردگی اور مغربی ثقافت و بے حجابی کے قائل ہیں ۔ ہمیں جہاں اس راستے کو اختیار کرنا چاہیے اور اسی پر استقامت کا ثبوت دینا چاہیے، جسے ہم شرعی دلائل یا معتبر علماء کی رائے کے احترام کی بنیاد پر اختیار کرتے ہیں اور بجا طور پر اس پر ہمیں اطمینان اور فخر ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے اجر اور قبولیت کی توقع رکھنی چاہیے، وہیں اگر دوسرا نقطۂ نظر کچھ ایسے دلائل کی بنیاد پر ہے، جو خواہ ہمیں مطمئن نہ کرسکے لیکن جس کی نسبت شریعت کے ماخذ ہی کی طرف ہو تو ہمیں اس کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ یہ اسی طرح ہے، جس طرح فقہ کے مختلف مکاتب فکر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔‘‘ (ص:۹۴-۹۵)
جن لوگوں کے نزدیک پردہ کے تقاضے مروجہ برقع ہی سے پورے ہوسکتے ہیں ، انھیں اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ کیا اس کے رواج سے قبل عورتیں شریعت کی نگاہ میں بے پردہ رہتی تھیں ؟