میں میڈیکل کا طالب علم ہوں۔ دورانِ تعلیم ہم لوگوں کو انسانی نعش کی چیر پھاڑ کر کے اندرونی اعضا دکھائے جاتے ہیں۔ اسی طرح پوسٹ مارٹم کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ انسانی نعش کو تختۂ مشق بنانا اور اس کی چیر پھاڑ کرنا اچھا نہیں معلوم ہوتا، کراہیت ہوتی ہے، لیکن یہ کام ضروری بھی معلوم ہوتا ہے، اس لیے کہ انسانوں کی زندگی بچانے میں ڈاکٹروں کا اہم رول ہوتا ہے۔ اگر وہ جسمِ انسانی کی بناوٹ اور اعضا کے افعال و منافع صحیح طریقے سے جان لے تو علاج معالجہ میں اسے مہارت حاصل ہوگی۔ اسی طرح پوسٹ مارٹم سے فوج داری تحقیقات میں مدد ملتی ہے۔ کسی شخص کی موت طبعی ہوئی ہے، یا اسے قتل کیا گیا ہے؟ اس کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔
براہِ کرم رہ نمائی فرمائیں، کیا تعلیم کی غرض سے لاشوں کی چیر پھاڑ اور پوسٹ مارٹم شرعی طور پر جائز ہے؟
جواب
اسلام میں انسانوں کی تعظیم و توقیر کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی تحقیر و تذلیل سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّیبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا (الإسراء: 70)
’’ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور انھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انھیں فوقیت دی۔ ‘‘
یہ حکم جس طرح زندہ انسانوں کے لیے ہے، اسی طرح مرنے کے بعد بھی انسانی نعش کا احترام کرنے اور اس کی بے حرمتی سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
كَسْرُ عَظْمِ المَیتِ كَكَسْرِهِ حَیا (ابوداود: ۳۲۰۷، ابن ماجہ: ۱۶۱۶)
‘‘ میت کی ہڈی توڑنا، اس کی زندہ ہونے کی حالت میں ہڈی توڑنے کے مثل ہے۔ ’’
احترامِ آدمیت کی وجہ سے ہی اللہ کے رسول ﷺ نے قبر پر بیٹھنے سے منع کیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
‘‘کوئی شخص آگ کے انگارے پر بیٹھ جائے، جس سے اس کے کپڑے جل جائیں اور اس کی کھال بھی، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی قبر پر بیٹھے۔ ‘‘ (مسلم: ۹۷۱)
اس لیے عام حالات میں انسانی نعش کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور اس کی چیڑ پھاڑ جائز نہیں ہے۔ ہاں کوئی شدید ضرورت ہو تو بقدرِ ضرورت گنجائش ہو سکتی ہے۔
طب کی تعلیم کے دوران میں انسانی نعشوں کی چیر پھاڑ (Dissection)کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد طلبہ کو انسانی جسم کے اعضا، ہڈیوں اور احشا (Viscera)کی بناوٹ، طبیعی ہیئت اور مرضی صورتوں سے واقف کرانا ہوتا ہے۔ طلبۂ طب کو آئندہ مریضوں کے علاج معالجے کی اہم خدمات انجام دینی ہوتی ہے۔ ہزاروں زندگیوں کو بچانے میں ڈاکٹروں کا اہم رول ہوتا ہے۔ اس لیے طبی مضامین میں ان کی مہارت ضروری ہے۔ دوسری طرف انسانی نعش کا احترام ملحوظ رکھنے کی بھی تاکیدی حکم ہے۔ اس لیے جہاں تک ہوسکے، احتیاط کرنی چاہیے۔ پہلے اعضا کے ماڈل (Models) دکھائے جائیں، خاکوں، تصویروں اور ڈرائنگ پر مبنی ویڈیوز (Animated Vedios)کا استعمال کیا جائے۔ آخر میں شدید ضرورت کے تحت انسانی نعش کا Dissectionکروایا جا سکتا ہے۔
پوسٹ مارٹم کی نوبت عام طور پر طبی قانونی(Medico-Legal) ضرورت سے پیش آتی ہے۔ حادثاتی موت کی صورت میں اس کے اسباب جاننا ضروری ہوتا ہے۔ موت زہر کھانے سے ہوئی ہے، یا گلا گھٹنے سے؟ طبیعی موت ہے، یا کسی نے قتل کیا ہے؟ یا مرنے والے نے خودکشی کی ہے؟ پوسٹ مارٹم سے سببِ قتل متعین ہوجاتا ہے۔ بسا اوقات کسی مقدمے میں جرم کی تفتیش کے لیے پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی پر قتل کا الزام ہے تو اس تحقیق میں مدد ملتی ہے کہ موت کا واقعی سبب قتل ہے، یا مرنے والا طبعی موت مرا ہے؟ یا قتل کر کے خودکشی قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ پوسٹ مارٹم کے ذریعے بسا اوقات ملزم کو ناحق سزا سے بچایا جا سکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ عام حالات میں اور طبیعی موت کی صورت میں پوسٹ مارٹم سے بچنا چاہیے، البتہ حادثاتی اموات میں طبی قانونی ضرورتوں سے پوسٹ مارٹم کرنا شرعی طور پر جائز ہے۔