پیشاب کرتے وقت احتیاط نہ کرنے پرعذاب

ایک حدیث میرے مطالعہ میں آئی ہے ،جس میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ دو (۲) قبروں  کے پاس سے گزرے۔آپؐ نے فرمایا ان دونوں پرعذاب ہورہا ہے۔ ان میں سے ایک چغلی کرتاتھا اوردوسرا پیشاب کرتے وقت احتیاط نہیں کرتاتھا۔پھر آپؐ نے ایک درخت سے ایک ٹہنی توڑی اور اس کے دوٹکڑے کرکے دونوں قبروں پرلگادی اورفرمایا کہ جب تک یہ ٹہنیاں ہری رہیں گی، امید ہے کہ ان دونوں پرعذاب میں  تخفیف ہوجائے گی۔ حدیث سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ دونوں  عذاب پانے والے کون تھے؟ یہ مومن تھے یا کافر؟ا وریہ کس زمانے کا واقعہ ہے اورکہاں کا ہے ؟اگر وہ کافر تھے تو صرف انہی دونوں کاموں پرعذاب کیوں ؟ وہ توایمان ہی سے محروم تھے اور اس سے بڑی سزا اور عذاب کے مستحق تھے۔ اگرمومن تھے تو بھی صرف انہی اعما ل پر عذاب کا ذکر کیوں ؟انھوں نے، ممکن ہے، دوسرے گناہ بھی کیے ہوں ،پھر حدیث میں  ان پرسزاکا ذکر کیوں نہیں ہے؟امید ہے، میرے ان اشکالات کو دورفرمائیں گے۔
جواب

آپ نے جو حدیث نقل کی ہے اس میں  ان دواشخاص کے نام مذکور نہیں  ہیں جن پر عذاب ہورہاتھا۔ اللہ کے رسول ﷺ کے ہر ی ٹہنی لگادینے سے ان کے عذاب میں  تخفیف ہوگئی۔ بہتر ہے کہ ان کے بارے میں تفصیل جاننے کی کوشش نہ کی جائے کہ وہ صحابہ کرام تھے یا منافق تھے؟ یا کافر تھے؟ حدیث میں  جو ابہام ہے اسے باقی رکھاجائے اورجو بات کہی گئی ہے اس پر توجہ دی جائے کہ ان کاموں  (چغلی اورپیشاب کرنے میں  عدم احتیاط) سے بچاجائے جن کا ذکر حدیث میں کیا گیا ہے۔
یہ حدیث بخاری(۲۱۶) ، مسلم (۱۱۱)،ترمذی(۷۰)، ابودائود (۱۰)، نسائی (۳۱)، ابن ماجہ (۳۷۴)، دارمی (۷۳۹) اور مسند احمد (۱۹۸۰) وغیرہ میں آئی ہے۔ شارح بخاری علامہ ابن حجرؒ نے اس کی شرح میں لکھا ہے ’’ان دونوں اشخاص کے نام حدیث میں  مذکورنہیں ہیں ۔ظاہر ہے کہ راویوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔انھوں نے اچھا ہی کیا، اس لیے کسی معاملے میں کسی شخص کی مذمت کا پہلو نکلتا ہوتواس کا نام جاننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ ابن حجرؒ نے متعدد اقوال نقل کیے ہیں ۔ بعض ان دونوں کو کافر بتاتے ہیں ، بعض مسلمان۔ اس سلسلے میں انہوں نے متعدد روایات کا حوالہ دیا ہے۔ تفصیل کے لیے رجوع کیجیے فتح الباری، بشرح صحیح البخاری ، دارالمعرفۃ بیروت، ۱؍۳۲۰۔۳۲۱