جواب
تعلیماتِ نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشاب کرتے وقت خاص طور سے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی چھینٹیں بدن اورکپڑے پر نہ آئیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’’ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دوقبروں کے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ان دونوں کوقبر کا عذاب دیا جارہا ہے ، وہ بھی کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ۔ ان میں سے ایک شخص پیشاب کرتے وقت اس کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔‘‘ (صحیح مسلم ۲۹۲:)
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپؐ نرم زمین میں اوربیٹھ کر پیشاب کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’ جوشخص یہ بیان کرے کہ آپؐ کھڑے ہوکر پیشاب کرتے تھے اس کی با ت نہ مانو، اس لیے کہ آپ ؐ ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کیا کرتے تھے۔‘‘( ترمذی : ۱۲ )
البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے بعـض مواقع پر کھڑے ہوکر بھی پیشاب کیا ہے۔ حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گھورے کے پاس کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔ (بخاری۲۲۴:، مسلم۲۷۳:)
علامہ ابن قیمؒ نے اپنی کتاب ’زاد المعاد ‘ میں قضائے حاجت کا طریقۂ نبوی بیان کرتے ہوئے ایک ذیلی عنوان یہ قائم کیا ہے :’’ کیا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے ؟‘‘ اس کےتحت حضرت حذیفہؓ کی مذکورہ بالا روایت نقل کرنے کے بعد لکھاہے:
’’صحیح بات یہ ہے کہ آپؐ نے ایسا احتیاط کے طور پر اور پیشاب کی چھینٹوں سے بچنے کے لیے کیا تھا۔ اس لیے کہ گھورے پر لوگ کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے، جس کا ڈھیر لگاہوا تھا ۔ اگر ایسی جگہ پر کوئی شخص بیٹھ کر پیشاب کرے تو چھینٹیں اسی کے اوپر پلٹ کر آئیں گی، اس لیے کھڑے ہوکر پیشاب کرنےکے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
(زاد المعاد فی ہدی خیر العباد، ابن قیم ‘ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، ۲۰۰۹ء، ص ۵۵۔۵۶)
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اسکول میں ایک ایسا بیسن لگوادینے میں کوئی حرج نہیں ہے جس میں کھڑے ہوکر پیشاب کیا جاتا ہے ، جب کہ ایسے استنجا خانے بھی اسکول کیمپس میں وافر تعداد میں ہوں جنہیں بیٹھ کر پیشاب کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے ۔ ساتھ ہی مسلم بچوں کوقضائے حاجت کے اسلامی آداب بھی بتائے جائیں اورکوشش کی جائے کہ وہ دل کی آمادگی کے ساتھ ان پر عمل کریں اورغلط عادات واطوار ان میں نہ پنپنے پائیں ۔