جواب
روزہ کی مدت طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت میں ، جس کا ایک حصہ آپ نے بھی نقل کیا ہے، اس کی صراحت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِص ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی اللَّیْلِج
(البقرہ:۱۸۷)
’’(راتوں کو) کھاؤ پیو، یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے۔ تب (یہ سب کام چھوڑ کر) رات تک اپنا روزہ پورا کرو۔‘‘
جن صاحب کا آپ نے تذکرہ کیا ہے، غالباً انھیں غلط فہمی ایک حدیث کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ماہِ رمضان کے آغاز و اختتام کے سلسلے میں فرمایا:
اِذَا رَأَیْتُمُوْہُ فَصُوْمُوْا وَ اِذَا رَأَیْتُمُوْہُ فَاَفْطِرُوْا۔
(صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب ھل یقال رمضان أو شھر رمضان، حدیث: ۱۹۰۰، صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل شھر رمضان، حدیث: ۱۰۸۰)
’’چاند دیکھ کر روزہ شرع کرو اور چاند دیکھ کر روزہ ختم کرو۔‘‘
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چاند دیکھتے ہی افطار کرلو، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ چاند دیکھ لو تو اگلے دن روزہ نہ رکھو۔ جس طرح رمضان کا چاند دیکھتے ہی فوراً روزہ نہیں شروع ہوجاتا، بلکہ اس کا آغاز اگلے دن طلوع فجر سے ہوتا ہے، اسی طرح شوال کا چاند اگر غروب آفتاب سے کچھ دیر قبل نظر آجائے تو فوراً روزہ نہیں ختم کردیا جائے گا، بلکہ غروبِ آفتاب تک انتظار کرنا ہوگا۔