چاند دیکھ کر افطار کرنا

ایک صاحب نے چاند دیکھ کر افطار کیا، حالاں کہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا، بلکہ عصر ہی کا وقت تھا۔ اگر چاند دیکھ کر روزہ رکھنا ہے اور چاند دیکھ کر افطار کرنا ہے تو پھر قرآن کی اس آیت کا حق کہاں ادا ہوا کہ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی اللَّیْلِ (اپنا روزہ رات تک پورا کرو)۔ جہاں تک روزہ رکھنے کا سوال ہے وہ ماہ رمضان کا چاند نظر آنے پر ہی رکھا جاتا ہے۔ لیکن اگر ماہ رمضان کی آخری تاریخ کو شوال کا چاند سورج غروب ہونے سے پہلے یا عصر کے وقت ہی دکھائی دے تو کیا اسی وقت افطار کرنا چاہیے، یا پھر معمول کی طرح سورج غروب ہونے کے بعد افطار کرنا چاہیے؟ بہ راہ کرم اس سلسلے میں مکمل رہ نمائی فرمائیں ۔
جواب

روزہ کی مدت طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت میں ، جس کا ایک حصہ آپ نے بھی نقل کیا ہے، اس کی صراحت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِص ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی اللَّیْلِج
(البقرہ:۱۸۷)
’’(راتوں کو) کھاؤ پیو، یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے۔ تب (یہ سب کام چھوڑ کر) رات تک اپنا روزہ پورا کرو۔‘‘
جن صاحب کا آپ نے تذکرہ کیا ہے، غالباً انھیں غلط فہمی ایک حدیث کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ماہِ رمضان کے آغاز و اختتام کے سلسلے میں فرمایا:
اِذَا رَأَیْتُمُوْہُ فَصُوْمُوْا وَ اِذَا رَأَیْتُمُوْہُ فَاَفْطِرُوْا۔
(صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب ھل یقال رمضان أو شھر رمضان، حدیث: ۱۹۰۰، صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل شھر رمضان، حدیث: ۱۰۸۰)
’’چاند دیکھ کر روزہ شرع کرو اور چاند دیکھ کر روزہ ختم کرو۔‘‘
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چاند دیکھتے ہی افطار کرلو، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ چاند دیکھ لو تو اگلے دن روزہ نہ رکھو۔ جس طرح رمضان کا چاند دیکھتے ہی فوراً روزہ نہیں شروع ہوجاتا، بلکہ اس کا آغاز اگلے دن طلوع فجر سے ہوتا ہے، اسی طرح شوال کا چاند اگر غروب آفتاب سے کچھ دیر قبل نظر آجائے تو فوراً روزہ نہیں ختم کردیا جائے گا، بلکہ غروبِ آفتاب تک انتظار کرنا ہوگا۔