جواب
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جو معاہدے کیے جائیں ان کو پورا کیا جائے اور ان کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۰ۥۭ (المائدۃ: ۱)
’’اے ایمان لانے والو! اپنے عہد وپیمان پورے کرو ‘‘۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ ’عقود ‘ میں وہ عہد وپیمان شامل ہیں جو انسان اللہ تعالیٰ سے کرتا ہے اور وہ عہد وپیماں بھی جو انسانوں کے درمیان آپس میں طے پاتے ہیں ۔ مولانا محمد لقمان سلفی فرماتے ہیں :
’’لفظ ’ عقود ‘عام ہے۔ اس سے مراد وہ تمام احکام ہیں جو اللہ نے بندوں پر فرض کیے ہیں اور وہ تمام عقود وعہود جو انسانوں کے درمیان دنیوی معاملات کے بارے میں طے پاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ان تمام عقود وعہود کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیوں کہ ایمان کایہی تقاضا ہے کہ مومن اللہ کا نافرمان نہ ہو اور نہ اپنی اجتماعی زندگی میں خائن، بدعہد اور دھوکہ دینے والا بنے ‘‘۔
(تیسیرالرحمٰن لبیان القرآن ، محمد لقمان السلفی، طبع سعودی عرب، ۲۰۰۰ء، ص ۳۲۲)
ہر ملک نے مصنوعات اور دیگر چیزوں کی درآمد وبرآمد کے لیے قوانین بنا رکھے ہیں ۔ شہریوں کے لیے ان کی پابندی ضروری ہے۔ ان کی خلاف ورزی جرم کے زمرے میں آتی ہے، جس پر سزائیں متعین کی گئی ہیں ۔
ایک مسلمان جس ملک کا شہری ہو، ضروری ہے کہ وہ وہاں کے قوانین کی پابندی کرے۔ ان کی خلاف ورزی جہاں اس کے لیے باعث تعزیر ہوگی وہیں اس کے ایمان کے تقاضے کے بھی منافی ہے۔
جن چیزوں کی درآمد پر حکومت نے پابندی لگار کھی ہے، یا ان کی متعینہ مقدار سے زیادہ درآمد کرنے پر کسٹم ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی ہے، انھیں حکومت سے چھپاکر لانا اور ان کی تجارت کرنا جائز نہیں ہے۔ اس طریقے سے حاصل کیا ہوا منافع حلال نہیں ہوگا۔