چھوٗٹی ہوئی نمازوں کا کفّارہ؟

میرے ایک قریبی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں نمازوں کے بڑے پابند تھے، مگر مرض ِ وفات میں ان کی کچھ نمازیں چھوٹ گئی ہیں ۔ کیا ان کا فدیہ ادا کیا جاسکتا ہے؟ اگر ہاں تو بہ راہ کرم یہ بھی بتایے کہ فدیہ کتنا ہوگا اور کیسے ادا کیا جائے گا؟
جواب

اگر کسی شخص کا انتقال ہوجائے اور اس کی کچھ نمازیں یا روزے چھوٹ گئے ہوں تو کیا اس کا وارث ان کا فدیہ ادا کرسکتا ہے؟ اس معاملے میں احادیث میں صرف روزوں کا تذکرہ ملتا ہے، نمازوں کے سلسلہ میں کوئی صراحت نہیں ملتی۔
متاخرین فقہائے احناف نے نمازوں کو روزوں پر قیاس کرتے ہوئے چھوٹی ہوئی نمازوں پر بھی کفارہ مشروع قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی وفات سے قبل اپنی چھوٹی ہوئی نمازوں کا فدیہ ادا کیے جانے کی وصیت کردی ہو، تو اس کے ایک تہائی مال میں سے اس کی وصیت کو پورا کرنا اس کے ورثاء پر واجب ہوگا۔ لیکن اگر اس نے وصیت نہ کی ہو تو ورثاء کو اختیار ہے۔ ان کے مطابق ایک نماز کا وہی فدیہ ہے جو ایک روزے کا ہے۔ یعنی بہ قدر صدقۂ فطر (ایک صاع جو / نصف صاع گیہوں )۔( اس سلسلے میں ملاحظہ کیجیے فتاویٰ دار العلوم دیوبند، طبع دیوبند ۱۳۸۴ھ، ۴/۳۶۳- ۳۷۳، ذیلی عنوان ’بعد موت کفارۂ نماز‘ کے تحت مختلف فتاویٰ)
صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ فدیہ کے معاملے میں نمازوں کو روزوں پر قیاس کرنا درست نہیں ۔ جس شخص کی کچھ نمازیں اس کی زندگی میں چھو ٹ گئی ہوں ، اس کے ورثاء کا اس کے لیے دعائے مغفرت کرنا اور اس کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنا کافی ہے، اس کی طرف سے چھوٹی ہوئی نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کا حکم نہیں ہے۔