ایک صاحب کے پانچ بچے ہیں۔سب بچے ابھی چھوٹے ہیں۔انھیں سنبھالنے اور پرورش و پرداخت میں ماں کو پریشانی ہوتی ہے۔زوجین کے درمیان اس موضوع پر پہلے سے ڈسکشن ہوتا رہا تھا۔ دو تین بچوں کے بعد ہی شوہر کہتے تھے کہ منع حمل کی عارضی یا دائمی تدابیر اختیار کرنی چاہیے، لیکن بیوی اس کے لیے تیار نہیں ہوتی تھی۔اس کا کہنا تھاکہ زوجین کے درمیان تعلق فطری انداز میں ہونا چاہیے،یہاں تک کہ پانچ بچے ہوگئے اوراب چھٹا حمل ابتدائی مرحلہ میں ہے۔
اُن صاحب کا کہنا ہے کہ بھارت میں زیادہ بچے ہونا ایک حسّاس مسئلہ ہے۔ اسپتالوںمیں بھی اس پر سختی سے پیش آیا جاتا ہے،نو ماہ تک استقرار حمل سے عورت کو بہت تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے،وضع کے وقت اس کی جان پر بن آتی ہے۔ بسا اوقات جنین تو بچ جاتا ہے، لیکن ماں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔
اس سلسلے میں براہ کرم درج ذیل سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں
۱- کیا ان مسائل کو دیکھتے ہوئے حمل ضائع کیا جا سکتا ہے؟
۲- کیا مباشرت کے دوران منع حمل کی عارضی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں؟مثلاً مرد کنڈوم کا استعمال کرے،یا عورت پِلس یاکاپر ٹی یا کوئی دوسری تدبیر اختیار کرے؟
۳- کیا منع حمل کی دائمی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہے ؟ کہ آپریشن کرا دیا جائے،تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔
جواب
اصل سوالات کا جواب دینے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سائل نے صورت حال کو جتنا سنگین بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس پر چند باتیں عرض کردی جائیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ بھارت میں زیادہ بچے ہونا ایک حسّاس مسئلہ ہے۔ اسپتالوں میں بھی اس پر سختی سے پیش آیا جاتا ہے۔‘‘یہ مسائل کسی قدر ہیں، لیکن مسلمان کام یابی سے انھیں انگیز کر رہے ہیں۔انھوں نے مزید لکھا ہے کہ ’’نو ماہ تک استقرار حمل سے عورت کو بہت تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے،وضع حمل کے وقت اس کی جان پر بن آتی ہے۔ بسا اوقات جنین تو بچ جاتا ہے، لیکن ماں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔‘‘یہ بات تو پہلے بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہے، حمل،وضع حمل، رضاعت اور پرورش کے مسائل درپیش آتے ہیں۔ کبھی پہلے یا دوسرے بچے کی پیدائش کے موقع پر ہی کوئی پیچیدگی پیدا ہوجانے کی وجہ سے عورت کی جان چلی جاتی ہے۔
دریافت کردہ سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں
۱- کسی حمل کا اسقاط کرانے کی صرف دو صورتیں ہو سکتی ہیںایک یہ کہ الٹرا ساؤنڈ وغیرہ کے نتیجے میں یہ بات قطعی طور سامنے آ جائے کہ عورت کے پیٹ میں جو بچہ پرورش پا رہا ہے وہ ناقص الخلقت ہے، اس میں کچھ ایسا نقص پیدا ہوگیا ہے کہ وہ پیدا ہونے کے بعد نارمل زندگی نہیں گزار سکتا، پوری زندگی وہ دوسروں کا محتاج رہے گا۔ اس صورت میں بعض فقہا اسقاط کو جائز قرار دیتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ عورت مختلف بیماریوں کا شکار ہو،اس کی صحت ٹھیک نہ رہتی ہواور حمل کو جاری رکھنے میں اس کی جان کو خطرہ ہو۔ یہ محض اندیشہ اور وہم نہ ہو، بلکہ معتبر ڈاکٹر بھی تصدیق کرے کہ عورت کی صحت کی خرابی کو دیکھتے ہوئے یہ حمل جاری رکھنے میں اس کی جان کو خطرہ ہے،تبھی اسقاط کی اجازت ہے۔ اس صورت میں بھی بعض علما ایک سو بیس ( ۱۲۰) دن کے اندر حمل ہو، تبھی اسقاط کی اجازت دیتے ہیں،اگرحمل اس سے زیادہ دن کا ہو گیا ہے تو اسقاط کی اجازت نہیں دیتے۔
۲-اگر کسی فیملی میں بچے زیادہ ہو گئے ہیں، جلدی جلدی ہوگئے ہیں،مزید بچے ہونے کی وجہ سے دشواری ہے،عورت کی صحت مزید بچے کی متحمل نہ ہوتو اس کے لیے مانع حمل تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔ ایک تدبیر تو یہ ہے کہ کوئی دوا لیے بغیر اورکوئی واسطہ اختیار کیے بغیر مرد وعورت احتیاط کے ساتھ تعلق قائم کریں کہ حمل نہ ٹھہرے۔کسی ڈاکٹر سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کن دنوں میں مباشرت سے حمل ٹھہر جاتا ہے اور کن دنوں میں نہیں ٹھہرتا؟ زوجین باہم مشورے سے منعِ حمل کی عارضی مصنوعی تدابیر بھی اختیار کر سکتے ہیں۔
۳-مزید حمل سے عورت کی صحت اور جان کو شدید خطرہ ہو اور ڈاکٹر اس کی تصدیق کرے تو ہمیشہ کے لیے پیداواری صلاحیت کو ختم کرنے کی تدابیر بھی اختیار کی جا سکتی ہے۔
آخر میں اس چیز کی طرف توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اولاد اللہ کی نعمت ہے، اس لیے موجود زمانے میں کم بچے رکھنے کا جو ٹرینڈ چل رہا ہے اس سے متاثر ہوکر کوئی شدید ضرورت نہ ہونے کے باوجود مانع حمل تدابیر کے بہانے تلاش کرنا،یا حمل کا اسقاط کروانے کوسوچنا درست رویہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے اپنے معاملے پر غور کرکے درست فیصلہ کرنا چاہیے۔شریعت میں عام حالات کے احکام اور اضطراری حالات کے احکام میں فرق ہے۔