جواب
محترم مراسلہ نگار نے لکھا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے اس موضوع پر مدلل بحث کرکے ثابت کردیا ہے کہ مسلمان عورت کے لیے گھر سے باہر نکلتے وقت اپنا چہرہ چھپانا ضروری ہے اور جماعت اسلامی کے بنیادی لٹریچر میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے، جس میں چہرہ کے بے پردہ ہونے کے دلائل دیے گئے ہوں اور یہ ترغیب دی گئی ہو کہ جماعت سے منسلک خواتین خود انتخاب کرلیں کہ چہرہ کھول کر باہر نکلنے کا موقف انھیں پسند ہے یا چہرہ ڈھانپ کر۔ اس طرح شاید مراسلہ نگار یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جماعت کے جملہ وابستگان کو لازماً مولانا مودودی کا موقف تسلیم کرکے اسی کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ چوں کہ میں نے اپنے جواب میں کوئی حتمی رائے نہیں دی تھی، اس لیے ان کے الفاظ میں ’’میں فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں کہ دونوں میں سے کس کو ترجیح دوں ۔ چناں چہ میں نے تحریکی خواتین کو یہ مشورہ دے ڈالا ہے کہ وہ چاہے چہرہ ڈھانپ کر گھر سے باہر نکلیں ، چاہے کھول کر، رضائے الٰہی کا حصول ہر ایک شکل میں طے شدہ ہے۔‘‘
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر تھوڑی سی تفصیل پیش کردی جائے۔
مولانا مودودیؒ کا نقطۂ نظر
پردے کے سلسلے میں قرآن کریم کی دو آیتیں بنیادی ہیں ۔ ایک سورۂ النور کی آیت نمبر ۳۱: وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلّاَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا اور دوسری سورۂ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۹: ’یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلاَبِیْبِھِنَّ‘ مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں دونوں مقامات پر اور اپنی کتاب ’پردہ‘ میں اس موضوع پر مفصل اور مدلل بحث کی ہے اور بہت پر زور الفاظ میں اپنا یہ نقطۂ نظر پیش کیا ہے کہ مسلمان عورت کے لیے گھر سے باہر نکلتے وقت اپنا چہرہ چھپانا واجب ہے۔ تفصیل کے طالب ان بحثوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں ۔ محترم مراسلہ نگار نے بھی ان کے بعض اقتباسات نقل کیے ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی مولانا نے کچھ جملے ایسے بھی لکھ دیے ہیں ، جو ان کے موقف کی شدت کو کم کردیتے ہیں ۔ سورۂ النور کی آیت میں اِلّاَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا سے کس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے؟ اس میں صحابہ و تابعین اور بعد کے مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد ظاہری کپڑے ہیں ، بعض کے نزدیک چہرہ اور ہاتھ اور ان کے اسباب زینت، بعض کے نزدیک صرف ہاتھ اور بعض کے نزدیک صرف چہرہ۔ ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد مولانا ان پر ان الفاظ میں گفتگو فرماتے ہیں :
’’ہم کہتے ہیں کہ آپ اِلّاَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا کو ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی مقید نہ کیجیے۔ ایک مومن عورت، جو خدا اور رسول کے احکام کی سچے دل سے پابند رہنا چاہتی ہے اور جس کو فتنے میں مبتلا ہونا منظور نہیں ہے، وہ خود اپنے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے فیصلہ کرسکتی ہے کہ چہرہ اور ہاتھ کھولے یا نہیں ؟ کب کھولے اور کب نہ کھولے؟ کس حد تک کھولے اور کس حد تک چھپائے؟ اس باب میں قطعی احکام نہ شارع نے دیے ہیں ، نہ اختلاف احوال و ضروریات کو دیکھتے ہوئے یہ مقتضائے حکمت ہے کہ قطعی احکام وضع کیے جائیں ۔ جو عورت اپنی حاجات کے لیے باہر جانے اور کام کاج کرنے پر مجبور ہے اس کو کسی وقت ہاتھ بھی کھولنے کی ضرورت پیش آئے گی اور چہرہ بھی۔ ایسی عورت کے لیے بہ لحاظ ضرورت اجازت ہے اور جس عورت کا یہ حال نہیں ہے اس کے لیے بلا ضرورت قصداً کھولنا درست نہیں ۔‘‘
(پردہ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، ۲۰۰۷، ص: ۲۲۲، ۲۲۳)
مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تنقید
اقتباس بالا میں مولانا مودودیؒ نے جو بات کہی ہے وہ ان کے اصل موقف سے مختلف ہے، بل کہ دونوں میں تضاد محسوس ہوتا ہے۔ اس تضاد کو مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے بھی محسوس کیا تھا۔ ’پردہ‘ کے مباحث جب ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور کے کئی شماروں میں شائع ہوئے تو اس پر مولانا اصلاحی نے ایک استدراک لکھا، جو اس کے شمارہ مئی جون ۱۹۴۰ (ربیع الاول و ربیع الآخر ۱۳۵۹ھ، جلد: ۱۶، شمارہ ۳،۴) میں ’پردہ پر تنقیدی نظر‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں انھوں نے جہاں بہ حیثیت مجموعی پورے مقالے پر مبارک باد دی وہیں اس کے بعض مباحث پر اپنی بے اطمینانی کا اظہار کیا۔ انھوں نے لکھا:
’پردے کے احکام‘ کے عنوان سے جو فصل آپ نے لکھی ہے، اس کو میں نے خاص اہتمام سے پڑھا۔ مجھ کو افسوس ہے کہ میں اس فصل سے مطمئن نہیں ہوا اور مجھے اندیشہ ہے کہ شاید میری طرح اور بہت سے لوگ بھی اس میں اضطراب محسوس کریں گے۔ اس لیے میں نے چاہا کہ آپ کو اس کی طرف توجہ دلاؤں ، تاکہ مضمون کو بہ صورت کتاب چھاپتے وقت اگر آپ ضرورت محسوس کریں ، اس بحث کو اور زیادہ صاف کردیں ۔‘‘ (ترجمان القرآن، مئی جون ۱۹۴۰، ص: ۱۰۸)
آگے انھوں نے مولانا مودودی کے اسی اقتباس کو جسے سطور بالا میں نقل کیا گیا ہے، درج کرکے اسے کتاب کے دیگر مباحث سے غیر ہم آہنگ قرار دیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ان کی اس تنقید کو قبول نہیں کیا۔ چناں چہ ان کے استدراک پر جا بہ جا اپنے نوٹ لگائے اور دونوں کو ایک ساتھ شائع کیا۔ دونوں بزرگوں کے نقطہ ہائے نظر کا مطالعہ دل چسپی سے خالی نہیں ۔ یہ واضح رہے کہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ بھی عورت کے لیے چہرے کا پردہ واجب قرار دیتے ہیں ۔ اس موضوع پر انھوں نے اپنی تفسیر ’تدبر قرآن‘ اور بعض دیگر کتابوں میں بہت اچھی بحث کی ہے۔
دوسری رائے
دوسری رائے یہ ہے کہ اجنبی مردوں کے سامنے عورت کے لیے اپنی زینت کے اظہار کی جو ممانعت ہے، اس سے چہرہ اور ہاتھ مستثنیٰ ہیں ۔ وہ انھیں ان کے سامنے کھول سکتی ہے۔ یہ رائے متعدد صحابۂ کرام، تابعین اور فقہاء سے مروی ہے۔ ان میں ابن عباس، ابن عمر، انس رضی اللہ عنہم اور مجاہد، ضحاک، سعید بن جبیر اور اوزاعی رحمہم اللہ قابل ذکر ہیں ۔ ان کے اقوال تفسیر طبری اور جصاص کی احکام القرآن میں منقول ہیں ۔ مولانا مودودیؒ نے بھی ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فقہائے احناف کے نزدیک چہرہ عورت کے ستر میں داخل نہیں ہے، اس لیے اس کا پردہ شرعاً واجب نہیں ہے، البتہ فتنہ کا اندیشہ ہو تو اسے چھپانا ضروری ہے۔ دیگر فقہی مسالک (مالکیہ، شوافع اور حنابلہ) میں چہرہ چھپانا واجب ہے۔ لیکن سببِ وجوب میں ان کے علما کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اسے ستر میں شامل ہونے کی بنا پر واجب قرار دیتے ہیں اور بعض فتنے کی وجہ سے۔ تفصیلات کتب ِ فقہ میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔
یہ دوسری رائے عصر حاضر کے بعض علماء کی بھی ہے۔ ان میں شیخ محمد الغزالیؒ اور علامہ یوسف القرضاوی مدظلہٗ قابل ِ ذکر ہیں ۔ شیخ غزالی کی کتاب کا اردو ترجمہ ’معرکۂ حجاب اور عورت کی دنیا‘ کے نام سے شائع ہوا ہے اور علامہ قرضاوی کے فتاویٰ کے دوحصے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نے شائع کردیے ہیں ۔ برصغیر ہند میں مولانا شمس پیر زادہ نے اپنی تفسیر ’دعوۃ القرآن‘ میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے اور اسی دوسری رائے کے حق میں دلائل پیش کیے ہیں ۔
علامہ البانیؒ کا نقطۂ نظر
موجودہ دور کے علماء میں عورت کے چہرہ چھپانے کے عدم وجوب پر سب سے زیادہ مفصل اور مدلل بحث مشہور محدث علامہ محمد ناصر الدین الالبانیؒ (م ۱۹۹۹ء /۱۴۱۰ھ) نے کی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب حجاب المرأۃ المسلمۃ فی الکتاب والسنۃ میں یہ نقطۂ نظر پیش کیا ہے کہ گھر سے باہر نکلتے وقت ایک عورت اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ کھلے رکھ سکتی ہے۔ کیوں کہ یہ اعضاء ستر میں شامل نہیں ہیں ۔ انھوں نے اس موضوع پر اگرچہ آیات قرآنی سے بھی بحث کی ہے، لیکن ان کی اہم دلیل یہ ہے کہ عہد نبویؐ میں خواتین اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھتی تھیں ، لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے اس پر کبھی نکیر نہیں فرمائی۔ اس موقف کی تائید میں انھوں نے کئی احادیث اور واقعات ِ سیرت پیش کیے ہیں ۔ اس موقع پر مولانا مودودیؒ اور شیخ البانیؒ کے درمیان پردے کے موضوع پر ہونے والے مباحثے کی طرف اشارہ کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مولانا مودودی کی کتاب ’پردہ‘ کا عربی ترجمہ ’الحجاب‘ کے نام سے جب دمشق سے شائع ہونے لگا تو ناشر نے علامہ البانیؒ سے اس پر ’تعقیب‘ لکھوا کر اسے اصل کتاب کے ساتھ شامل کردیا۔ اس تعقیب میں انھوں نے پہلے بعض ان احادیث پر کلام کیا ہے، جن سے ’پردہ‘ میں ’عورتوں کے لیے ستر کے حدود‘ کے عنوان کے تحت استدلال کیا گیا ہے اور انھیں ضعیف قرار دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ احادیث قرآن کریم اور سنت ثابۃ کے خلاف ہیں ۔ آخر میں انھوں نے چند ایسی احادیث نقل کی ہیں جن سے ان کے نقطۂ نظر کی تائید ہوتی ہے۔
مولانا مودودیؒ نے اس تعقیب پر شیخ البانیؒ کا شکریہ ادا کیا، لیکن ناشر کے رویے پر سخت تعجب اور ناگواری کا اظہار کیا کہ اس نے کیوں ان کے علم اور اجازت کے بغیر ان کی کتاب پر ایک دوسرے شخص سے استدراک لکھوا کر شامل ِ کتاب کردیا؟انھوں نے شیخ البانی کا جواب تیار کیا اور ناشر سے مطالبہ کیا کہ وہ کتاب کی مزید اشاعت اس وقت تک روک دے جب تک ان کے جواب کا عربی ترجمہ بھی اس کے ساتھ شامل نہ کردیا جائے اور جن لوگوں تک یہ کتاب پہلے پہنچ چکی ہے انھیں بھی یہ اوراق طبع کراکے پہنچادیے جائیں ۔ مولانا مودودیؒ کی اصل تحریر ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور جنوری ۱۹۶۰ء جلد: ۵۳، شمارہ: ۴ میں ’پردہ‘ پر چند اعتراضات اور ان کا جواب‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔
شیخ البانیؒ کے موقف پر عالم عرب میں بھی بعض حضرات نے نقد کیا ہے۔ مثلاً شیخ تویجری نے ’الصارم المشہور‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں عورت کے چہرے کے پردے کو واجب قرار دیا ہے اور شیخ البانیؒ کے دلائل کارد کیا ہے۔ شیخ البانیؒ نے اپنی کتاب ’حجاب المرأۃ المسلمۃ‘ پر نظر ثانی کی اور اپنے نقطۂ نظر کے حق میں مزید دلائل اور تائیدی احادیث و روایات پیش کیں ۔ یہ کتاب نظر ثانی اور اضافوں کے ساتھ جلباب المرأۃ المسلمۃ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں شیخ البانیؒ نے مولانا مودودیؒ کے جواب کا پھر جواب دیا ہے اور ان کے متعدد تسامحات کی نشان دہی ہے۔ چہرے کے پردے کو واجب قرار دینے والوں کے رد میں شیخ البانیؒ کی ایک اور کتاب ہے۔ اس کا نام ہے: ’الردّ المفحم علی من خالف العلماء و تشدد و تعصب والزم المرأۃ بستر وجھھا و کفیھا و أوجب، ولم یقنع بقولھم انہ سنۃ و مستحب‘ (مسکت جواب ان لوگوں کا جنھوں نے علماء کی مخالفت کی اور شدت پسندی اور تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورت کے چہرہ چھپانے کو واجب قرار دیا اور ان کی یہ بات نہ مانی کہ چہرہ چھپانا سنت اور مستحب ہے، لیکن واجب نہیں )
یہ اختلافی تحریریں جن لوگوں کی نظروں سے گزر جائیں ان پر یہ بات مخفی نہ رہے گی کہ اجنبی مردوں سے عورت کے چہرہ چھپانے کے وجوب یا عدم وجوب کے سلسلے میں صدر ِ اسلام سے اب تک دونوں نقطۂ نظر رہے ہیں ۔ دونوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں ۔ کسی ایک نقطۂ نظر کو بالکلیہ رد کردینا اور اسے غلط قرار دینا درست نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شیخ البانی کے نقطۂ نظر کے مطابق عورت کے لیے اپنا چہرہ کھلا رکھنا ضروری ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں متعدد احادیث اور روایات ایسی نقل کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد نبویؐ میں چہرے کا پردہ معروف تھا اور خواتین اس پر عمل کرتی تھیں ۔ انھوں نے ان لوگوں پر سخت الفاظ میں نقد کیا ہے، جو چہرے کے پردے کو ’بدعت‘ اور ’دین میں نئی ایجاد‘ قرار دیتے ہیں اور صراحت سے لکھا ہے کہ ’’چہرہ اور دونوں ہاتھوں کو ڈھانپنے کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے اور رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ اور ہاتھ ڈھانپتی تھیں ۔‘‘ ان کا کہنا یہ ہے کہ ’’مسلمان عورت کا اجنبی مردوں سے اپنے چہرے اور ہاتھ کے علاوہ پورا بدن چھپانا واجب ہے۔ چہرہ کھلا رکھنا اگرچہ جائز ہے، لیکن اس کا ڈھانپنا افضل ہے۔‘‘ ’’خواتین ِ اسلام کا چہرے کو چھپانا ایک مشروع و محمود فعل ہے، اگرچہ یہ واجب نہیں ہے۔ اگر کوئی خاتون اس کا اہتمام کرتی ہے تو بہتر ہے اور اگر کوئی اسے ضروری نہیں سمجھتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ ’’چہرہ اور ہاتھوں کو ڈھانپنے کو ہم مستحب سمجھتے ہیں اور اسی کی دعوت دیتے ہیں ۔‘‘ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے اپنی بیوی کو اسی کی تلقین کی ہے اور مجھے امید ہے کہ میری بیٹیاں جب جوان ہوجائیں گی تو وہ بھی اسی پر عمل کریں گی۔‘‘ ایک بات یہ بھی ملحوظ رہے کہ شیخ البانیؒ نے چہرے کو ستر و حجاب میں شامل نہ کرنے کی حمایت اس شرط کے ساتھ کی ہے کہ ان سے کسی زینت کا اظہار نہ ہو رہا ہو، کیوں کہ آیت وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ کا عمومی مطلب اور اس کی روح یہی ہے۔ اگر خواتین نے چہرہ اور ہاتھوں پر کسی زینت کا استعمال کر رکھا ہے تو ان کا پردہ کرنا واجب ہوگا۔
نفاق اور روشن خیالی کا الزام دینا ضروری نہیں
مولانا مودودیؒ نے چہرے کے پردے کی حمایت میں اپنی زوردار بحث کے ساتھ اس کی مخالف رائے رکھنے والے کے لیے ’منافق‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ تفہیم القرآن (جلد۴، صفحہ ۱۳۲) کے اس اقتباس سے ظاہر ہے، جسے محترم مراسلہ نگار نے نقل کیا ہے۔ خود انھوں نے اسے ’روشن خیالی‘ اور ’جدیدیت‘ کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ راقم سطور عرض کرتا ہے کہ چہرے کے پردے کے عدم وجوب کے قائلین کے لیے نفاق اور روشن خیالی کے الزامات عائد کرنا ضروری نہیں ہے۔
معتدل نقطۂ نظر
عورت کے لیے اجنبی مردوں سے چہرے کا پردہ واجب ہے یا نہیں ؟ یہ ایک فقہی مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ کی جو رائے ہے اس کی پابندی جماعت اسلامی کے ارکان اور وابستگان کے لیے ضروری نہیں ۔ خود مولانا مودودیؒ نے یہ بات بار بار مختلف فقہی سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہی ہے۔ اس موضوع پر معتدل نقطۂ نظر کی ترجمانی پروفیسر خورشید احمد نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان کے ایک جواب سے ہوتی ہے۔ انھوں نے ایک خاتون کو، جو چہرے کے پردے کے عدمِ وجوب سے متعلق ایک مضمون پڑھ کر ذہنی الجھن کا شکار ہوگئی تھیں ، لکھا:
’میں اسی حجاب کا قائل ہوں جو ہمارے دور کے مقتدر علماء بہ شمول مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے پیش کیا ہے۔ البتہ میں یہ بات ضرور آپ سے کہنا چاہوں گا کہ اسلامی تاریخ میں ماضی میں بھی اور آج بھی، اسلامی تحریکات اور دینی حلقوں سے وابستہ لوگوں کے درمیان جہاں حجاب کی فرضیت پر کوئی دو آر اء نہیں ، وہاں حجاب کی تفصیلات کے بارے میں ضرور محدود اور متعین اختلاف پایا جاتا ہے۔ ثقہ علماء کا ایک گروہ چہرے کے حجاب کو ضروری سمجھتا ہے اور صرف آنکھ، ہاتھ اور پاؤں کو ما ظہر منھا کے ذیل میں شمار کرتا ہے، جب کہ ماضی کے علماء اور فقہاء میں سے بہت کم اور آج کے برعظیم پاک و ہند کے علماء اور دوسرے اہل ِ علم کے سوا ایک خاص تعداد اس رائے کی حامی ہے کہ ہاتھ اور پاؤں کے ساتھ بغیر زینت کے چہرہ کھلا رکھا جاسکتا ہے۔ البتہ بال اور گردن ڈھکی ہونی چاہیے۔ عرب دنیا، جنوب مشرقی ایشیا کے علاقوں کے علماء اور اسلامی تنظیموں کا بہ حیثیت مجموعی یہی موقف ہے اور وہاں کی اسلامی تحریکات سے وابستہ خواتین اسی پر عامل ہیں ۔ البتہ یہ وضاحت کردوں کہ وہاں بھی ایک تعداد ایسے علماء اور ان کے متبعین کی ہے جو چہرے کے حجاب کے قائل ہیں ۔‘
آگے مزید فرماتے ہیں :
’’میرا اپنا تعامل ان علماء کی رائے کے مطابق ہے جو چہرے کے حجاب کے قائل ہیں ۔ لیکن یہ زیادتی ہوگی کہ جو لوگ اپنے دلائل کے مطابق چہرے کے حجاب کے قائل نہیں ہیں ، انھیں اس زمرے میں ڈال دیا جائے جو بے پردگی اور مغربی ثقافت و بے حجابی کے قائل ہیں ۔ ہمیں جہاں اس راستے کو اختیار کرنا چاہیے اور اسی پر استقامت کا ثبوت دینا چاہیے جسے ہم شرعی دلائل یا معتبر علماء کی رائے کے احترام کی بنیاد پر اختیار کرتے ہیں اور بجا طور پر اس پر ہمیں اطمینان اور فخر ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے اجر اور قبولیت کی توقع رکھنی چاہیے، وہیں اگر دوسرا نقطۂ نظر کچھ ایسے دلائل کی بنا پر ہے، جو خواہ ہمیں مطمئن نہ کرسکے، لیکن جس کی نسبت شریعت کے ماخذ ہی کی طرف ہو تو ہمیں اس کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح فقہ کے مختلف مکاتب فکر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔‘ ‘
(ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور، فروری ۲۰۰۳ء جلد: ۱۳۰، شمارہ: ۲، ص: ۹۳-۹۵)
آواز کا پردہ
چہرے کے پردے کی طرح آواز کے پردے کے معاملے میں بھی شد ّت پسندی کا مظاہرہ کیا جاتاہے۔ تفصیل سے گریز کرتے ہوئے اس معاملے میں مولانا مودودیؒ کے جواب پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ان کی کتاب ’پردہ‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک صاحب نے پردہ سے متعلق چند عملی سوالات اٹھائے۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا: ’کیا عورتوں کو مردوں اور عورتوں کے مشترکہ جلسوں میں نقاب اوڑھ کر تقریر کرنی جائز ہے؟ حدیث کی رو سے تو عورتوں کی آواز کا غیر محرم مردوں تک پہنچنا پسندیدہ نہیں معلوم ہوتا ہے؟‘ اس کا مولانا نے یہ جواب دیا:
’’بعض حالات میں یہ چیز جائز ہے کہ عورت پردے کی پابندی کے ساتھ مردوں کو خطاب کرے۔ لیکن بالعموم یہ جائز نہیں ہے۔ اس امر کا فیصلہ کرنا کہ کن حالات میں یہ چیز جائز ہے اور کن میں جائز نہیں ؟ صرف ایسے شخص یا اشخاص کا کام ہے جو مواقع اور حالات کو شرعی نقطۂ نظر سے سمجھنے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں اور شریعت کے منشا کے مطابق زندگی بسر کرنے کی نیت بھی ان میں پائی جاتی ہو۔‘‘ (رسائل و مسائل، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، ۲۰۰۷ء/ ۱۰۷، ۱۰۸)
خلاصہ یہ کہ دین کے کسی معاملے میں شریعت میں جتنی گنجایش موجود ہے اس سے فائدہ اٹھانا معیوب اور ناپسندیدہ نہیں ہے۔ بہ شرطے کہ نیت درست ہو اور احکامِ دین پر عمل کرنے کا جذبہ پایا جائے۔