ایک بکرے کے سینگ کاٹ دیے گئے ہیں۔ کیا اس کی قربانی ہو سکتی ہے؟
جواب
کن جانوروں کی قربانی کرنی جائز ہے، اس سلسلے میں جو شرائط مذکور ہیں ان میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ وہ صحت مند ہوں اور عیوب سے پاک ہوں۔ عیوب کی تفصیل بعض احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
أربعٌ لَا تَجُوزُ فِی الأضَاحِیالعَوْرُ بَیّنٌ عَوْرُھَا، وَالمَرِیْضَةُ بَیّنٌ مَرَضُھَا، وَالعَرْجَاءُ بَیّنٌ ظِلْعُھَا، وَالکَسِیْرُ الَّتِیْ لَا تَنْقِی۔
(ابو داؤد ۲۸۰۲، ترمذی۱۴۹۷، نسائی۴۳۷۴، ابن ماجہ۳۱۴۴)
’’چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں: ایسا کانا جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو، ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو، ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ انتہائی کم زور اور لاغر، جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔‘‘
چناں چہ فقہا نے کہا ہے کہ مذکورہ عیوب یا ان سے قبیح تر عیوب میں مبتلا جانوروں کی قربانی جائز نہیں، جیسے وہ جانور جو اندھا ہو، یااس کی ٹانگ کٹی ہوئی ہو، یا اس کی آدھی سے زیادہ سینگ ٹوٹی ہوئی ہو، یا آدھے سے زیادہ کان کٹے ہوئے ہوں، وغیرہ۔ البتہ اگر کسی جانور کے سینگ پیدائشی طور پر نہ ہوں تو اس کی قربانی جائز ہے۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں
أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللہِﷺ اَنْ نَسْتَشْرِفَ العَیْنَ وَالاُذْنَ
(ترمذی۱۵۰۳، نسائی۴۳۸۱، ابن ماجہ۳۱۴۳)
’’ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ ہم (قربانی کے جانور میں) آنکھ اور کان خوب اچھی طرح دیکھ لیں۔‘‘
البتہ قربانی کے جانور میں اگر کوئی معمولی عیب ہو تو وہ قربانی سے مانع نہیں۔ اس کے ساتھ قربانی کی جا سکتی ہے۔
جانور کا خصی ہونا کیا عیب میں شمار ہوگا؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ اگر چہ بعض فقہا نے خصی جانور کی قربانی کو مکروہ کہا ہے، لیکن زیادہ تر فقہا نے اس کی قربانی کو جائز قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ خصی کیے ہوئے جانور کے عیب دار ہونے کے سلسلے میں کوئی حدیث مروی نہیں ہے، بلکہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خصی کیے ہوئے جانور کی قربانی کی ہے۔ (ابن ماجہ۳۱۲۲)