جواب
ریعت نے عبادت کے جو طریقے بتائے ہیں اور جو احکام دیے ہیں ، بندہ عام حالات میں ان پرجوں کا توں عمل کرنے کامکلّف ہے، لیکن جس قدر عذر ہوگا اسی قدر اسے رخصت حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ (البقرۃ۱۸۵) ’’اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ،سختی کرنا نہیں چاہتا۔‘‘اورفقہی ضابطے ہیں المَشَقَّۃُ تَجْلُبُ التَیْسِیْرَ(دشواری کی صورت میں شریعت میں آسانی کا حکم ہے۔)، لَاتَکْلِیْفَ اِلَّا بِمَقْدُوْرٍ (کوئی شخص قدرت کی صورت ہی میں احکام کا مکلّف ہوتا ہے۔) موجودہ حالات میں ڈاکٹر وں ، نرسنگ اسٹاف اورمریضوں کے لیے درج ذیل صورتیں قابل ِ عمل ہیں
n ڈاکٹر،نرسیں اورطبی عملہ کے لوگ ماسک،دستانے اورحفاظتی گائون پہننے سے قبل وضو کرلیں ، تاکہ بعد میں وہ وقت ِ ضرورت موزوں پرمسح کرسکیں ۔
n نماز کے وقت وضو کے لیے اگر وہ بغیر کسی مشقت اورضرر کے گائون وغیرہ اتارسکیں تو ٹھیک ہے۔وہ اعضائے وضو کو دھوکر موزوں پرمسح کرلیں ۔
n اگر یہ ممکن نہ ہو تو تیمم کرلیں ۔
n ہر نماز کی ادائیگی اس کے وقت میں کی جانی چاہیے۔
n ممکن ہو تو نماز جماعت سے ادا کی جائے،ورنہ تنہا تنہا پڑھ لی جائے۔
n اگرمریضوں کے علاج میں شدید مصروفیت ،یا کسی اوروجہ سے ڈاکٹروں اوردیگر لوگوں کے لیے ہر نمازکو اس کے وقت میں پڑھنا ممکن نہ ہو تو ان کے لیے جمع بین الصلاتین جائز ہے، یعنی وہ ظہر وعصر کو ایک ساتھ اورمغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھ سکتے ہیں ۔
n جمع بین الصلاتین کی اجازت یوں تو سفر میں دی گئی ہے، لیکن احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کبھی حضر میں بھی دونمازوں کو جمع کیا ہے۔ (بخاری۵۴۳،۵۶۲، مسلم ۷۰۵)
n جمع ِ تقدیم بھی کی جاسکتی ہے،یعنی ظہر کے ساتھ عصر اورمغرب کے ساتھ عشاء پڑھ لی جائے اور جمع تاخیر بھی،یعنی عصر کے ساتھ ظہر اورعشاء کے ساتھ مغرب پڑھی جائے۔
n یہی حکم کورونا کے مریض کے لیے بھی ہے کہ اگر اس کے لیے ممکن ہوتو وضو کرے، ممکن نہ ہو تو تیمم کرے۔اورہر نماز اس کے وقت میں اداکرے۔کچھ دشواری ہوتو جمع بین الصلاتین کرے۔
شریعت نے احکام میں بڑی آسانی رکھی ہے۔قرآن میں ہے ’’اللہ کسی پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘(البقرۃ۲۸۶) نماز زندگی کی آخری سانس تک معاف نہیں ہے۔وہ لوگ قابلِ مبارک باد ہیں جوہرحال میں اس کی پابندی کرتے ہیں ۔ایسے لوگوں کے لیے کام یابی کی ضمانت دی گئی ہے۔(المؤمنون ۹۔۱۱)