جواب
امراض سے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو شریعت کی سند حاصل ہے، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ایسا ہی کرنا چاہیے۔ احتیاط نہ کرنا اور توکل کے نام پر بیماری پھیلانے کا ذریعہ بننا نہ صرف مقاصدِ شریعت کے خلاف ہے، بلکہ دین کی بدنامی کاباعث بھی ہے۔ لیکن احتیاط میں بہت زیادہ مبالغہ کرنا دین میں مطلوب نہیں ہے۔عذر اسی حد تک قابل ِ قبول ہے جس حد تک وہ واقعتاًپایا جائے۔ موہوم اندیشوں کو حقیقی عذر کی حیثیت سے پیش کرنا درست نہیں ۔
بعض حضرات کاخیال ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم کا مدافعتی نظام کم زورہوجاتاہے، جس سے کوروناوائرس کے حملہ آورہونے کا خطرہ بڑھ جاتاہے، دوسرے ،روزے کی وجہ سے جسم پر پڑنے والا بوجھ موجودہ صورتِ حال میں خطرناک ہوسکتا ہے، کیوں کہ یہ وائرس کے حق میں جاتا ہے ۔اسلامی تعلیمات کے مطابق روزہ صرف اس وقت رکھاجاسکتا ہے،جب وہ صحت یا زندگی کو خطرات میں نہ ڈالتا ہو۔ اسلامی احکام کے مطابق حاملہ خواتین ، بیماراور کم زور افراد پہلے ہی روزہ سے مستثنیٰ ہیں ۔ ایسی صورت میں کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ان حالات میں رمضان کے روزوں کو ترک کردیاجائے اورحالات درست ہونے کے بعد ان کی قضا کرلی جائے؟
یہ خیال درست نہیں ہے۔ شریعت کے تمام احکام عام مسلمانوں کے لیے اور عام حالات میں ہیں ۔ ان کے مکلف وہ لوگ ہیں جو ان پر عمل کی سکت رکھتے ہیں ۔ جنہیں کوئی عذر ہو وہ ان پرعمل سے مستثنیٰ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۰ۭ (البقرۃ۲۸۶) ’’ اللہ کسی شخص پراس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو ساتھ ہی تسلی دی گئی کہ انہیں بوجھ نہ سمجھو، یہ نہ خیال کروکہ ان کی وجہ سے مشقت میں پڑجائو گے، ان کی فرضیت تم سے پہلے کی قوموں پر بھی کی گئی تھی، اس سے تمہاری دینی ،روحانی اور اخلاقی زندگی سنوارنا مقصود ہے،اس لیے شرح صدر سے روزہ رکھو۔البتہ جنہیں واقعی مشقت ہوسکتی تھی انہیں رخصت دے دی گئی کہ وہ روزہ رکھ کر ہلکان نہ ہوں ، بلکہ حسب ِ سہولت بعد میں رکھ لیں ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۰ۭ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۰ۭ (البقرۃ۱۸۴)
’’چند مقرردنوں کے روزے ہیں ،البتہ اگر تم میں سے کوئی بیمارہو،یاسفرپرہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔‘‘
مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اگلی آیت (۱۸۵) میں اسی بات کو پھر دہرایا گیا
فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۰ۭ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۰ۭ (البقرۃ۱۸۵)
’’لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے،اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہویاسفرپر ہو،تووہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔‘‘
ساتھ ہی رخصت اورتخفیف کی بنیادی وجہ بھی بیان کردی گئی
يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۰ۡ(البقرۃ۱۸۵)
’’اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے،سختی کرنا نہیں چاہتا۔‘‘
سفر اورمرض حقیقی اعذار ہیں ۔ سفر چاہے جتنا آرام دہ ہو اس میں عموماً حضر جیسی سہولتیں حاصل نہیں ہوتیں ۔ مرض کی صورت میں روزہ رکھنے میں بہت دقتیں ہوں گی۔اس لیے روزہ کے حکم سے مسافراورمریض دونوں کو مستثنیٰ کردیاگیا۔ حاملہ عورت اوردودھ پلانے والی عورت کو بھی فقہا نے مریض کے حکم میں رکھا ہے اور انہیں اجازت دی ہے کہ وہ ماہ رمضان میں روزہ نہ رکھ کربعد میں قضا کرسکتی ہیں ۔ بوڑھے اوردائمی مریض چوں کہ اب آئندہ کبھی روزہ نہیں رکھ سکتے، اس لیے انہیں اجازت دی گئی ہے کہ وہ روزے نہ رکھ کر ان کا فدیہ ادا کردیں ۔
کورونا کی وبائی صورت میں چوں کہ زیادہ تراوقات میں گھر پررہنے کی تاکید کی گئی ہے اور بغیر کسی شدید ضرورت کے باہر نکلنے سے منع کیاگیا ہے، اس لیے عام افراد کو روزہ رکھنے میں کوئی خاص مشقت نہیں اور نہ انہیں کوئی خطرہ ہے، البتہ جو لوگ میدان میں ہوں ،مثلاً ڈاکٹر،نرسیں اور طبی عملہ کے لوگ، جوکورونا کے مریضوں کا علاج کررہے ہیں ، وہ خطرہ کی کگار پر ہیں ، ان کے لیے رخصت ہوسکتی ہے کہ وہ اس موقع پر اپنی پوری طاقت عوام کو اس مرض سے بچانے میں جھونک دیں اور اپنے روزے بعد میں کبھی رکھ لیں ۔ اسی طرح جو لوگ کورونا کے کسی مریض کے براہ راست رابطہ میں آجانے کی وجہ سے قرنطینہ میں رکھے گئے ہیں اور ان کے لیے ڈاکٹروں کی سخت تاکید روزہ نہ رکھنے کی ہے، وہ بھی اس رخصت پر عمل کرسکتے ہیں ، لیکن دوسرے تمام لوگ موہوم اندیشوں سے خود کو بچائیں اورروزہ رکھنے کا پختہ ارادہ کریں ۔ پتہ نہیں ، اگلے برس زندگی وفاکرے یا نہ کرے۔
عربوں میں ایک رسم رائج تھی جسے’نسئی‘ کہا جاتاتھا۔ وہ اپنی سہولت کے پیش نظر مہینوں کو آگے پیچھے کرلیا کرتے تھے۔ قرآن مجید میں اس پرنکیرکی گئی اوراسے کافرانہ اور گم راہ کن عمل قراردیاگیا۔(التوبۃ۳۴) تمام لوگوں کے لیے موجودہ حالات میں ماہ رمضان میں روزہ نہ رکھ کر آئندہ کبھی رکھ لینے کا مشورہ دینا اسی قبیل سے ہوگا۔