کيا مصنوعي استقرار حمل (IVF) اور رحم مادر کي کرايہ داري (Surrogacy) نا جائز ہے؟

,

آج کل مصنوعي طريقے سے استقرار حمل (IVF) کا رواج ہو رہا ہے۔ نکاح کے کئي برس کے بعد بھي اگر کسي جوڑے کے يہاں بچے نہيں ہوتے تو وہ ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے۔ ڈاکٹر بسا اوقات IVF طريقے کو اختيار کرنے کا مشورہ ديتا ہے۔ اس طريقے ميں مرد اور عورت کے مادے لے کر الگ سے انھيں ملايا جاتا ہے، پھر عورت کے رحم ميں منتقل کيا جاتا ہے، جس ميں نارمل طريقے سے جنين کي پرورش ہوتي ہے۔ کبھي عورت کے رحم ميں خرابي ہوتي ہے جس کي بنا پر اس ميں جنين کي پرورش نہيں ہو سکتي۔ اس صورت ميں کسي دوسري عورت کا رحم کرايے پر ليا جاتا ہے۔ وہ حمل کے مرحلے سے گزرتي ہے۔ بچہ پيدا ہونے پر اسے طے شدہ اجرت دے دي جاتي ہے اور بچہ لے ليا جاتا ہے۔

کيا يہ صورتيں اسلامي نقطۂ نظر سے ناجائز ہيں ؟ يا ان کے جواز کے کچھ پہلو ہو سکتے ہيں؟ براہ کرم جواب سے نوازيں۔

جواب

مرد اور عورت کے جنسي اعضاء (Sexual Organs) کے اتصال سے توالد و تناسل کا سلسلہ جاري رہتا ہے۔ مرد کے خصيوں ميں مادہ منويہ (Sperm) جمع رہتا ہے جسے نطفہ کہتے ہيں۔ يہ مباشرت کے وقت اس کے عضو مخصوص سے نکل کر عورت کے رحم (Uterus)ميں داخل ہوتا ہے۔ رحم کے دونوں طرف خصيے (Ovary) ہوتے ہيں، جن ميں سے ہر ماہ ايک بيضہ (Ovum) نکلتا ہے۔ ہر خصيہ ايک ٹيوب کے ذريعے رحم سے جڑا ہوتا ہے جسے قاذف (Fallopian Tube ) کہتے ہيں۔ نطفہ اور بيضہ کا اتصال اسي ٹيوب کے باہري ايک تہائي حصے ميں ہوتا ہے۔ پھر ان سے جو مخلوطہ تيار ہوتا ہے وہ واپس رحم ميں آکر ٹھہرتا ہے۔ اسے استقرار حمل (Fertilization) کہتے ہيں کہ اس طرح رحم مادر ميں جنين کي تشکيل ہوتي ہے۔ وہ پلتا اور بڑھتا ہے، يہاں تک کہ نو مہينے کے بعد اس کي ولادت ہوتي ہے۔

يہ استقرار حمل اور تشکيل جنين کا فطري طريقہ ہے۔ بسا اوقات کسي سبب سے اس ميں خلل واقع ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مرد جنسي قوت ميں کمي کے سبب مباشرت پر قادر نہ ہو، يا اس کے نفطہ ميں حيوانات منويہ (Spermatozoa) کا تناسب کم يا ان کي حرکت (Motility) کم زور ہو يا نطفہ کو خصيوں سے آگے لے جانے والي رگيں مسدود ہو گئي ہوں، يا عورت کے خصية الرحم ميں کسي نقص کے سبب اس کے بيضہ کا اخراج ممکن نہ ہو، يا قاذف پيدائشي طور پر موجود نہ ہوں، يا کسي مرض کے سبب مسدود ہو گئے ہوں، يا عورت ميں پيدائشي طور پر رحم موجود نہ ہو، يا اس ميں ٹيومر ہو گيا ہو، جس کے سبب استقرار حمل ممکن نہ ہو۔ ان صورتوں ميں استقرار کا مصنوعي طريقہ اختيار کيا جاتا ہے۔ آج کل ميڈيکل سائنس نے غير معمولي ترقي کر لي ہے۔ چناں چہ مصنوعي استقرار حمل کے بہت سے طريقے زير عمل ہيں۔ شوہر کا نطفہ نہ مل سکے، يا کارآمد نہ ہو تو کسي دوسرے مرد کا نطفہ استعمال کر ليا جاتا ہے، بيوي کا بيضہ نہ فراہم ہو سکے تو کسي دوسري عورت کا بيضہ حاصل کر ليا جاتا ہے۔ اس کے ليے نطفہ اور بيضہ کے بڑے بڑے بينک قائم ہو گئے ہيں۔ جن سے ان کي خريداري ممکن ہے۔

کسي عورت کے رحم ميں کسي خرابي کي وجہ سے اس ميں استقرار حمل ممکن نہ ہو تو دوسري عورت کا رحم کرايے پر حاصل کر ليا جاتا ہے۔ وہ نفطہ اور بيضہ کے مخلوطے کو اپنے رحم ميں پرورش کرتي ہے اور ولادت کے بعد بچے کو اس کے خواہش مند جوڑے کے حوالے کر ديتي ہے اور ان سے منھ مانگي اجرت پاتي ہے۔ اس چيز نے عالمي سطح پر ايک بہت بڑي انڈسٹري کي شکل اختيار کر لي ہے۔

اسلامي نقطہ نظر سے مصنوعي استقرار حمل کے يہ تمام طريقے حرام ہيں۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَہُ زَرْعَ غَيْرِهِ۔ (ابو داؤد: ۲۱۵۸، ترمذي: ۱۱۳۱)

’’ کسي شخص کے ليے، جو اللہ اور روز آخر پر ايمان رکھتا ہو، جائز نہيں ہے کہ اس کا پاني دوسرے کي کھيتي کو سيراب کرے۔ (يعني وہ بيوي کے علاوہ کسي دوسري عورت سے جنسي تعلق قائم کرے) ‘‘

اسلام ميں نسب کي حفاظت پر بہت زيادہ زور ديا گيا ہے جب کہ ان طريقوں سے نسب محفوظ نہيں رہتا۔ مصنوعي استقرار حمل اور پرورش جنين صرف تين صورتوں ميں جائز ہو سکتي ہے۔

۱۔ نطفہ شوہر سے حاصل کيا گيا ہو۔

۲۔ بيضہ بيوي کے خصية الرحم سے نکالا گيا ہو۔

۳۔ جنين کي پرورش بيوي کے رحم ميں کي جائے۔

اسلام ميں رحم مادر کي کرايہ داري (Surrogacy)، جسے قائم مقام مادريت بھي کہتے ہيں، قطعي حرام ہے۔ جو جوڑے اولاد سے محروم ہيں اور وہ مذکورہ جائز طريقوں سے بھي صاحب اولاد نہيں ہو سکتے، ان کے ليے اسلام جائز قرار ديتا ہے کہ وہ کسي بچے کو گود لے کر اس کي پرورش کريں، البتہ اس کا نسب نہ بدليں۔ اس کي ولديت ميں اس کے حقيقي باپ کا نام لکھوائيں اور اپنا نام اس کے سرپرست (Gradian) کي حيثيت سے درج کروائيں۔

May 2024