جواب
یہ حدیث بہت سی کتابوں میں آئی ہے۔صرف صحیح بخاری میں دس(۱۰) مقامات پر روایت کی گئی ہے۔ ایک روایت (۵۷۰۷) میں یہ بات کہنے کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے ’’جذامی شخص سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘بخاری کی ایک روایت (۵۷۷۱) میں اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے ’’کسی بیمار (اونٹ) کو صحت مند (اونٹوں ) کے ساتھ نہ رکھا جائے۔‘‘
ان دونوں باتوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ دونوں باتیں درست ہیں ۔ دونوں میں الگ الگ پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جذامی شخص سے بچنے کی تلقین اور بیمار کو صحت مند سے الگ رکھنے کی ہدایت کا واضح مطلب یہی ہے کہ انفیکشن کی حقیقت ہے ۔ اسے تسلیم کرنا چاہیے۔ اور’ انفیکشن نہیں ہوتا‘کا مطلب یہ ہے کہ انفیکشن بذات خود مؤثر نہیں ہے۔ کوئی بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص کو اللہ تعالیٰ کے اذن اور مشیّت سے لگتی ہے ۔ اگر اللہ کی مشیّت نہ ہو تو بیمار کے رابطہ میں آنے کے باوجود صحت مندوں کو بیماری نہیں لگ سکتی۔ یہ ہمارا دن رات کا مشاہدہ ہے۔ گھر میں کسی فرد کو کوئی متعدی بیماری ہوتی ہے، اس کے ساتھ گھر میں کئی لوگ رہتے ہیں ، لیکن انہیں وہ بیماری نہیں لگتی، یا کسی کو لگ جاتی ہے، کسی کو نہیں لگتی۔ اسی طرح اسپتال میں متعدی امراض کے شکار لوگوں کا علاج ہوتا ہے، ان کے رابطہ میں رہنے والے ڈاکٹروں اور طبی عملہ کو وہ بیماری نہیں لگتی، یا کسی کو لگ جاتی ہے، کسی کو نہیں لگتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انفیکشن ایک سے دوسرے کو منتقل ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیّت پر منحصر ہوتا ہے۔
یہی بات بخاری کی ایک روایت (۵۷۱۷) میں کہی گئی ہے۔ جب اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’ انفیکشن نہیں ہوتا‘‘ تو ایک بدّو نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! میرے اونٹ صحت مند ہوتے ہیں ۔ ان کے درمیان ایک خارش زدہ اونٹ آجاتا ہے تو انہیں بھی خارش کا مرض لگ جاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’ اس پہلے اونٹ کو خارش کس نے لگائی تھی؟ ‘‘