کیا آبِ زم زم کھڑے ہوکر پینا مسنون ہے؟

گزشتہ دنوں سفرِ حج سے واپس آنے والے بعض حضرات کی طرف سے کھجور اور آبِ زم زم کا تحفہ ملا۔ ایک موقعے پر میں نے آبِ زم زم بیٹھ کر پیا تو ایک صاحب نے ٹوک دیا کہ زم زم کھڑے ہوکر پینا مسنون ہے۔ میں نے اس سلسلے میں تحقیق کی تو بعض کتابوں میں یہ لکھا ہوا پایا کہ زم زم قبلہ رخ کھڑے ہوکر پینا چاہیے۔ لیکن ان میں کوئی شرعی دلیل نہیں دی گئی تھی۔ اس لیے اطمینان نہ ہوسکا۔ بہ راہ کرم اس سلسلے میں تحقیقی جواب مرحمت فرمائیں کہ کیا آبِ زم زم کھڑے ہوکر پینا مسنون ہے؟
جواب

اللہ کے رسول ﷺ سے بیٹھ کر کھانا پینا ثابت ہے۔ حضرت انسؓ، جنھوں نے دس سال تک آں حضرت ﷺ کی خدمت کی ہے، فرماتے ہیں کہ آپؐ نے کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا ہے۔ اِنَّ النَّبِیَّ ﷺ نَھَی اَنْ یَّشْرَبَ الرَّجُلَ قَائِمًا۔ (صحیح مسلم، کتاب الاشربۃ، باب الشرب قائماً، حدیث: ۲۰۲۴) یہ روایت حضرت ابوسعید خدریؓ سے بھی مروی ہے۔ ان دونوں صحابیوں سے مروی ایک روایت کے الفاظ ہیں : اِنَّ النَّبِیَّ ﷺ زَجَرَ عَلَی الشُّرْبِ قَائِماً۔ یعنی نبی ﷺ نے کھڑے ہوکر پینے سے سختی سے منع فرمایا ہے (حوالہ سابق، حدیث: ۲۰۲۴، ۲۰۲۵) آں حضرت ﷺ کی یہ ممانعت جہاں عام حالات کے لیے ہے وہیں اس کا تعلق آبِ زم زم سے بھی ہے۔
زم زم کے سلسلے میں غلط فہمی دراصل ایک روایت کی وجہ سے ہوئی ہے۔ حضرت شعبیؒ حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے (ایک موقع پر) زم زم کھڑے ہوکر پیا۔ یہ روایت بخاری(۵۶۱۷)، مسلم(۲۰۲۷)،ترمذی (۱۸۸۲)اور ابن ماجہ (۳۴۲۲)میں کتاب الاشربۃ میں آئی ہے۔ دوسری روایت میں حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو آبِ زم زم پلایا۔ آپؐ نے اسے قیام کی حالت میں پیا۔ (بخاری: ۱۶۳۷) ایک روایت میں یہ بھی اضافہ ہے کہ آپؐ نے ایک ڈول سے آبِ زم زم نوش فرمایا تھا۔ (مسلم:۲۰۲۷) حضرت شعبیؒ کے شاگرد عاصم الاحول بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عکرمہؒ (حضرت ابن عباسؓ کے ایک دوسرے شاگرد) کے سامنے بیان کیا کہ حضرت ابن عباسؓ ایسا ایسا کہتے ہیں ۔ انھوں نے قسم کھا کر کہا کہ نبی ﷺ نے کھڑے ہوکر نہیں پیاتھا۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الاشربۃ، باب الشرب قائماً، حدیث: ۳۴۲۲) بخاری میں عکرمہؒ کا یہ قول مروی ہے کہ ’’اس دن آں حضرت ﷺ اونٹ پر سوار تھے۔ (کتاب الحج، باب ماجاء فی زم زم، حدیث: ۱۶۳۷) یعنی آپؐ نے سواری کی حالت میں زم زم نوش فرمایا تھا۔
حافظ ابن حجرؒ نے دونوں بیانات میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’سنن ابو داؤد میں ایک دوسری سند سے حضرت عکرمہؒ حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اونٹ پر سواری کی حالت میں طواف کیا۔ پھر اونٹ سے اتر کر دو رکعت نماز ادا کی۔ اس لیے ممکن ہے دوبارہ اونٹ پر سوار ہونے سے قبل آپؐ نے کھڑے ہوکر زم زم پیا ہو۔‘‘
(فتح الباری، ۳/۴۹۳،۱۰/۸۵)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آں حضرت ﷺ کا کھڑے ہوکر زم زم پینا، اس کی کسی فضیلت کی بنا پر تھا یا محض بیانِ جواز کے لیے تھا؟ محدثین اسے بیانِ جواز کے لیے قرار دیتے ہیں ۔ امام ترمذیؒ نے اس روایت پر یہ باب قائم کیا ہے: باب ماجاء فی الرخصۃ فی الشرب قائماً (اس چیز کا بیان کہ بعض حالات میں کھڑے ہوکر پینے کی رخصت ہے)۔ صحیح مسلم کے شارح امام نوویؒ نے اس پر تفصیل سے اظہار ِ خیال کیا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’بعض احادیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا ہے۔ جب کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے بعض مواقع پر کھڑے ہوکر پیا ہے۔ بعض علماء کے لیے ان احادیث میں تطبیق دشوار ہوگئی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ آپؐ کی نہی کو کراہت ِ تنزیہی پر محمول کرنا چاہیے اور آپؐ کا کھڑے ہوکر پینا بیانِ جواز کے لیے تھا۔ اس طرح ان احادیث کے درمیان کوئی اشکال اور تعارض باقی نہیں رہتا۔‘‘ آگے مزید فرماتے ہیں کہ ’’اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ کھڑے ہوکر پینا مکروہ کیوں کر ہوسکتا ہے، جب کہ بعض مواقع پر آپؐ نے کھڑے ہوکر پیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپؐ نے ایسا بیانِ جواز کے لیے کیا تھا۔ اس لیے آپؐ کا کھڑے ہوکر پینا مکروہ نہ ہوگا، جب کہ دوسرے لوگوں کے لیے کھڑے ہوکر پینا مکروہ ہوگا۔ آپؐ سے ثابت ہے کہ آپؐ نے ایک مرتبہ وضو میں اعضاء کو ایک ایک بار دھویا اور ایک مرتبہ آپؐ نے سواری پر طواف کیا، جب کہ اس پر اجماع ہے کہ وضو میں اعضاء کو تین تین بار دھونا اور پیدل طواف کرنا افضل ہے۔ اس طرح کے نظائر بے شمار ہیں ۔ آں حضرت ﷺ کبھی کبھی بیانِ جواز کے لیے کوئی کام ایک مرتبہ یا چند مرتبہ کرتے تھے، جب کہ افضل صورت پر پابندی سے عمل کرتے تھے۔ چناں چہ آپؐ نے اکثر وضو میں اعضاء کو تین تین بار دھویا ہے، اکثر طواف پیدل کیا ہے اور اکثر پانی بیٹھ کر پیاہے۔ جس شخص کو علم سے ذرا سا بھی واسطہ ہو اسے اس امر میں کوئی شبہ نہ ہوگا۔‘‘
(شرح صحیح مسلم، جلد:۵، جزء ۱۳، ص: ۱۹۵)
علامہ ابن قیمؒ نے بھی اس موضوع پر لکھا ہے۔ آں حضرت ﷺ کے پینے کے معمولات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’آں حضرت ﷺ اکثر بیٹھ کر پانی نوش فرمایا کرتے تھے، بلکہ آپؐ نے کھڑے ہوکر پینے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ بس ایک مرتبہ آپؐ نے کھڑے ہوکر پیا ہے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ آپؐکے اس عمل نے آپؐ کی نہی کو منسوخ کردیا۔ جب کہ بعض دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ آپؐنے یہ واضح کرنے کے لیے ایسا کیا تھا کہ کھڑے ہوکر اور بیٹھ کر دونوں طرح پینا جائز ہے۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم) کہ یہ ایک خاص واقعہ ہے، جس میں آپؐ نے کسی عذر کی بنا پر کھڑے ہوکر پیا تھا۔ واقعے کے سیاق سے اس پر دلالت ہوتی ہے۔ آپؐ زم زم کے کنویں پر تشریف لے گئے۔ وہاں لوگ پانی پلا رہے تھے۔ آپؐ نے ڈول لے کر اس سے کھڑے ہوکر پیا۔ اس مسئلے میں صحیح بات یہ ہے کہ کھڑے ہوکر پینا ممنوع ہے۔ البتہ اگر کوئی عذر ہو، جس سے آدمی بیٹھ نہ سکے تو کھڑے ہوکر پی سکتا ہے۔ اس طرح دونوں قسم کی احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے۔ واللہ اعلم۔‘‘ (زاد المعاد، ۱/۱۴۹-۱۵۰)
اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ آب ِ زم زم کھڑے ہوکر پینا مسنون نہیں ہے بلکہ اسے بھی بیٹھ کر پینا پسندیدہ ہے۔