جواب
ام دنوں میں اور آج کل کے حالات میں بھی یہ صورت جائز نہیں معلوم ہوتی ۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں :
(۱) فقہاء نے اقتدا کی درستگی کے لیے یہ شرط عائد کی ہے کہ امام اور مقتدی ایک جگہ پر ہوں اور مقتدی کو امام کی حرکات و سکنات کا علم ہوتا رہے۔ وہ امام کی آواز سنے، یا اسے یا دیگر مقتدیوں کو دیکھے، تاکہ اسے امام کے حال کے بارے میں کوئی شبہ نہ ہو۔آن لائن اقتدا میں یہ شرط مفقود ہوگی ۔
(۲) فقہاء یہ شرط بھی عائد کرتے ہیں کہ امام اور مقتدیوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو۔چنانچہ فقہ کی قدیم کتابوں میں ملتا ہے کہ اگر مقتدیوں کی صفوں کے درمیان کوئی اونچی دیوار یا نہر یا بند دروازہ ہو تو بعد کے مقتدیوں کی نماز اس امام کے پیچھے درست نہ ہوگی ۔
(۳) نماز کے معاملے میں الیکٹرانک آلات پر اس حد تک انحصار درست نہیں ، اس لیے کہ وہ کسی بھی وقت دھوکہ دے سکتے ہیں ۔ دورانِ نماز مسجد کا مائک خراب ہوجائے، یا مسجد یا گھر کی بجلی چلی جائے، یا ٹی وی میں کوئی خرابی آجائے، یا اس کے ماہانہ کنکشن کی فیس ختم ہوجانے کی وجہ سے ٹرانسمیشن بند ہوجائے، بہت سی صورتیں ممکن ہیں ۔اس طرح مسجد کے امام اور گھر کے مقتدیوں کا رابطہ منقطع ہوجائے گا ۔
(۴) اس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ بعد میں لوگوں کے دلوں سے مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے کی اہمیت کم یا ختم ہوجائے اور اضطرار رفع ہوجانے کے بعد بھی وہ آن لائن نماز کے عادی ہوجائیں اور اپنے گھروں میں رہتے ہوئے پنج وقتہ نمازیں یا جمعہ کی نماز مسجد کے مائک پر امامِ مسجد کی اقتدا میں پڑھنے لگیں ۔
(۵) اس کا بھی اندیشہ ہے کہ کچھ منچلے ٹیلی ویژن پر دیکھ کر امامِ حرم کی اقتدا میں نماز ادا کرنے لگیں ۔
ان وجوہ سے فقہا کی رائے ہے کہ آن لائن نمازِ تراویح جائز نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں ہر گھر میں نماز تراویح ادا کرنی چاہیے ۔ اس کی ادائیگی انفرادی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی بھی۔ اجتماعی تراویح کی صورت میں گھر ہی میں کسی کو امام بنایا جائے اور اس کے پیچھے نماز ادا کی جائے۔ جمعہ کی نما زکے سلسلے میں بھی یہی حکم ہے۔
یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ موجودہ دور میں عالمِ اسلام کے متعدد بڑے فقہا، مثلاً ابن بازؒ، ابن عثیمینؒ، ابو زہرہؒ،حسنین مخلوفؒ، جاد الحقؒ، مصطفیٰ زرقاؒ رحمہم اللہ وغیرہ اور فتویٰ صادر کرنے والے اداروں نے بھی یہی رائے دی ہے اور آن لائن نماز کو ناجائز قرار دیا ہے۔ ان کے فتاویٰ انٹرنیٹ پر موجود ہیں ۔