جواب
آپ کے مکتوب سے یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس واقعے کو پڑھ کر آپ کو کیوں حیرانی و پریشانی ہوئی؟ مخالفین اسلام نے آں حضرت ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کیے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ آپ کی کثرت ِ ازواج کا سبب نعوذ باللہ آپ کی شہوت پرستی تھی۔ یہ بات وہ ایک ایسی ہستی کے بارے میں کہتے ہیں ، جس کی جوانی عفت و عصمت کا نمونہ تھی، جس نے پچیس سال کی عمر میں ایک چالیس سالہ خاتون سے نکاح کیا پھر پورے پچیس سال صرف اسی کے ساتھ گزار دیے، اس کی وفات کے بعد پھر اپنی ہم عمر ایک بوڑھی خاتون سے نکاح کیا اور جس کے بیش تر نکاح عمر کے آخری چار پانچ سال میں ہوئے تھے۔ (آں حضرتﷺ کی ازواج مطہرات کی کثرت کے حِکَم و مصالح اور آپ کی ازدواجی زندگی پر دیگر اعتراضات کا جائزہ میں نے اپنے ایک مقالے میں لیا ہے، جو میری کتاب ’حقائق اسلام‘ (شائع شدہ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی) میں شامل ہے۔
آپ کی حیرانی و پریشانی کی وجہ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ واقعہ سے تاثر ملتا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے مذکورہ خاتون سے نکاح کرنے کے بعد بغیر کسی وجہ کے انھیں طلاق دے دی تھی، حالاں کہ بات یہ نہیں ہے۔ یہ خاتون قبیلۂ کندہ کے سردار نعمان بن شراحیل بن اسود بن جون کی صاحب زادی تھیں ۔ نعمان نے ۹ھ میں خدمت نبوی میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا تو یہ بھی عرض کیا کہ میری بیٹی عرب کی حسین ترین عورتوں میں سے ہے۔ میں نے اپنے بھتیجے سے اس کا نکاح کردیا تھا۔ وہ بیوہ ہوگئی ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ اس سے نکاح کرلیں ۔ آپؐ نے رضا مندی ظاہر فرمائی اور حضرت ابو اسید ساعدیؓ کو اسے لانے کے لیے بھیجا۔ حضرت ابو اسیدؓ نے اسے لاکر قبیلۂ بنو ساعدہ کے ایک گھر میں اتارا۔ (فتح الباری ۹/۳۵۹ بہ حوالہ ابن سعد) صحیح بخاری میں ہے کہ آپؐ اس کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ خلوت پر اس نے ناگواری کا اظہار کیا اور بعض ایسی باتیں کہیں ، جن سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ اسے آپ کی زوجیت منظور نہیں ۔ آپؐباہر نکل آئے اور متعۂ طلاق کا جوڑا عنایت کرکے اسے اس کے قبیلے میں واپس بھجوادیا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت ﷺ اس خاتون سے نکاح پر محض اس کے باپ کی خواہش اور اس کی بیوگی پر از راہ ہمدردی تیار ہوگئے تھے، لیکن جب اس کی طرف سے اظہار ہوا کہ اسے آپ کی زوجیت منظور نہیں تو اسے طلاق دے دی۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت کو کتنی آزادی دی گئی ہے کہ وہ پیغمبر سے نکاح سے بھی انکار کرسکتی ہے۔
یہ واقعہ صحیح بخاری، کتاب الطلاق، باب من طلق و ھل یواجہ الرجل امرأتہ بالطلاق (۵۲۵۵، ۵۲۵۶، ۵۲۵۷)میں تفصیل سے مذکور ہے۔ اس کے علاوہ سنن ابن ماجہ، ابواب الطلاق، باب ما یقع بہ الطلاق (۲۰۵۰) اور مسند احمد، جلد ۳، ص :۴۹۸، جلد۵، ص:۳۳۹ میں بھی مروی ہے۔ مذکورہ خاتون کے نام میں بہت اختلاف ہے۔ امام بخاریؒ نے ایک جگہ امیمہ بنت نعمان اور دوسری جگہ امیمہ بنت شراحیل لکھا ہے۔ ابن ماجہ میں ایک جگہ ابنۃ الجون اور دوسری جگہ عمرۃ بنت الجون ہے۔ مسند احمد میں ایک جگہ امیمہ اور دوسری جگہ امیۃ آیا ہے۔ محمد بن اسحاق، محمد بن حبیب اور بعض دیگر حضرات نے اسماء بنت نعمان ذکر کیا ہے۔ بعض دیگر نام بھی ملتے ہیں ۔ علامہ ابن حجر نے دونوں میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے اور لکھا ہے کہ شاید ان کا نام اسماء اور لقب امیمہ ہو۔ بہ ہر حال، یہ واقعہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
عموماً اصحاب ِ سیر نے آں حضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کی تعداد گیارہ بتائی ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں ، جنھیں کچھ عرصہ آں حضرت ﷺ کی زوجیت و رفاقت میں رہنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ یہ امت کی مائیں ہیں ۔ آں حضرتﷺ کے وصال کے بعد ان سے اللہ تعالیٰ کو دین کی تعلیم و تبلیغ کی اہم خدمت لینی تھی۔ دوسرے انھیں آں حضرتﷺ سے خاص تعلق ہونے کی وجہ سے افرادِ امت کے دلوں میں ان کے بارے میں انتہائی عزت و احترام کا جذبہ پایا جاتا تھا۔ ان وجوہ سے ان سے نکاح حرام قرار دیا گیا۔ ان کے علاوہ کتب ِ سیرت میں بعض ایسی خواتین کے نام ملتے ہیں ، جنھیں آں حضرت ﷺ نے پیغام نکاح دیا، لیکن کسی وجہ سے نکاح نہیں ہوپایا، ان سے نکاح تو ہوگیا لیکن خلوت سے قبل ہی بعض اسباب سے ان سے علیٰحدگی اختیار کرلی۔ علامہ ابن قیمؒ نے ایسی خواتین کی تعداد چار یا پانچ بتائی ہے۔ (زاد المعاد، ۱/۱۱۴) ایسی خواتین کا شمار ازواجِ نبی اور امہات المومنین میں نہیں ہوتا۔ اسی بنا پر بعض صحابہ نے ان سے نکاح کرلیا تھا۔