جواب
اسلام میں وراثت کا نظام موجود ہے۔ کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی زمین جائیداد اور دیگر مملوکہ چیزیں ا س کے قریبی رشتے داروں میں تقسیم ہوتی ہیں ۔ اس سلسلے میں مردوں اور عورتوں میں کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے اور سب کے حصے متعین کیے گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوٰلِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوٰلِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوضاً (النساء۷)
’’مَرد وں کا اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کا بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو، اگرچہ تھوڑا ہو یا زیادہ، یہ حصے مقرر ہیں ۔‘‘
ایسی تدبیریں اختیار کرنا جن سے ورثہ میں سے کوئی محروم ہوجائے، درست نہیں ہے۔ ایسا کرنے والا گناہ گار ہوگا۔
بعض اولادیں والدین کی نافرمان ہوجاتی ہیں اور غلط روش پر جا پڑتی ہیں ۔ چنانچہ والدین ان سے سخت ناراض ہوجاتے ہیں ۔ اپنی ناراضی اور نافرمان اولاد سے اپنی لا تعلقی ظاہر کرنے کے لیے وہ اعلان کر دیتے ہیں اور بسا اوقات یہ اعلان اخبارات میں بھی چھپوا دیتے ہیں کہ فلاں شخص سے ،جو ہمارا بیٹا ہے، اب ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، اسے ہم نے عاق کر دیا ہے۔
آدمی کا کسی ناراضی کی بنا پر اپنی اولاد کو عاق کرنا جائز نہیں ہے۔ شرعی طور پر اس عمل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کے مرنے کے بعد مالِ وراثت میں دوسری اولادوں کی طرح وہ لڑکا بھی حصہ پائے گا جسے عاق کیا گیا ہو۔
اولاد میں سے کسی کو زمین جائیداد سے محروم کر دینے سے دوریاں پیدا ہوتی ہیں ۔ اس کی نافرمانی مزیدبڑھ جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ سماج میں بدنامی ہوتی ہے۔ پھراس کا بھی قوی امکان رہتاہے کہ نافرمان اولاد آئندہ سدھر جائے اور نیک بن جائے۔ اس لیے کسی اولاد کی نافرمانی کی صورت میں اسے عاق کرکے زمین جائیداد سے محروم کرنے کے بجائے اس کے حق میں دعا اور حسن تدبیر سے اصلاح احوال کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
البتہ اگر کوئی شخص مرنے سے پہلے اپنی زندگی میں اپنا مال اور دیگر مملوکہ چیزیں اپنی اولاد کے درمیان عملاًتقسیم کر دے۔ وہ کسی ایک اولاد کو کچھ نہ دے اور دیگر اولاد کو ہبہ کرکے انھیں مالک بنا دے تو قانونی طور پر اس کا یہ عمل نافذ ہوجائے گا، اگرچہ وہ اپنی ایک اولاد کو محروم کرنے کا گناہ گار ہوگا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آدمی جس چیز کا مالک ہو اس میں اسے آزادانہ تصرف کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اگر اسے یہ حق نہ ہو تو ملکیت کیسی؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہ (الحدید۷)
’’اور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔‘‘
وَآتُوْھُم مِّن مَّالِ اللَّہِ الَّذِیْ آتَاکُمْ (النور۳۳)
’’اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمھیں دیا ہے۔‘‘
وَآتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہُ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً (بنی اسرائیل۲۶)
’’ رشتے دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق۔ فضول خرچی نہ کرو۔‘‘
ان تمام آیات میں خرچ کرنے کی آزادی دی گئی ہے اور کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں عائد کی گئی ہے۔
کسی بیٹے کو عاق کرکے اسے اپنے مال سے یک سر محروم کرنے کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ دانے د انے کو محتاج ہوجائے اور در بدر مارا پھرے۔ حدیث میں ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو نصیحت کی تھی:
إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِّنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُوْنَ النَّاسَ (بخاری ۱۲۹۵، مسلم۱۶۲۸)
’’تم اپنے ورثہ کو مال دار حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں محتاجی کی حالت میں چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔‘‘
اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنا کل سرمایہ اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے تو کیا اس کے لیے لازم ہے کہ وہ سب کے درمیان برابر تقسیم کرے؟ یا وہ حسبِ ضرورت ان کے درمیان کچھ کمی بیشی کر سکتا ہے؟ اس سلسلے میں ہمیں ایک حدیث سے رہ نمائی ملتی ہے۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ نے بیان کیا ہے
’’میرے باپ نے مجھے ایک چیز تحفے میں دی۔ میری ماں نے کہا میں اسے قبول نہیں کروں گی جب تک آپ رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہ بنالیں ۔ میرے باپ مجھے لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا’’میں نے اپنے اس بیٹے کو فلاں چیز دی ہے، لیکن اس کی ماں کا اصرار ہے کہ میں اس پر آپ کو گواہ بنا لوں ۔‘‘آپﷺ نے فرمایا اے بشیر! کیا تمھارے اور بھی لڑکے ہیں ؟ انھوں نے عرض کیا جی ہاں ۔ آپ نے پھر سوال کیا کیا تم نے دوسرے لڑکوں کو بھی یہ چیز دی ہے؟ انھوں نے جواب دیا نہیں ۔تب آپ نے فرمایا ’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔‘‘ ایک اور روایت میں آپ کا یہ ارشاد بھی ہے’’میں ظلم و زیادتی پر گواہ نہیں بنوں گا۔ تمھارے بیٹوں کا حق ہے کہ تم ان کے درمیان انصاف سے کام لو۔‘‘ (بخاری۲۵۸۶، مسلم۱۶۲۳)
اس حدیث کی بنا پر بعض فقہا(حنابلہ، احناف میں سے اما م ابو یوسفؒ، ابن مبارکؒ، طاؤسؒ اور ایک روایت کے مطابق امام مالکؒ) کی رائے ہے کہ اولاد کے درمیان تقسیم میں برابری واجب ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو زیادہ اور کسی کو کم دیتا ہے تووہ گناہ گار ہوگا۔ اگر اس نے ایسا کر دیا ہے تو اس کی تلافی کی صورت بس یہ ہے کہ یا تو جس کو زیادہ دیا ہے اس سے واپس لے لے، یا جس کو کم دیا ہے انھیں مزید دے کر برابر کر دے۔
فقہا یہاں تک کہتے ہیں کہ زندگی میں تقسیم کی صورت میں لڑکے اور لڑکی کے درمیان بھی تفریق نہیں کرنی چاہیے، بلکہ دونوں کو برابر دینا چاہیے۔ البتہ حنابلہ، احناف میں سے امام محمدؒ اور ایک مرجوح قول کے مطابق امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ لڑکے اور لڑکی کو دو ایک کے تناسب (۱:۲) سے دیا جا سکتا ہے، جیسا کہ میراث کی تقسیم لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْن (مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے) کے اصول پر کی جاتی ہے۔
لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کو ضرورت محسوس ہو تو وہ اپنی زندگی میں اولاد کو دینے میں کمی بیشی کر سکتا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ہبہ کرنے میں اپنی صاحب زادی ام المومنین حضرت عائشہؓ کو اپنی دیگر اولاد پر ترجیح دی تھی۔ اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے بیٹے عاصم کو، جنھیں وہ زیادہ عزیز رکھتے تھے، اپنی دیگر اولاد کے مقابلے میں زیادہ دیا تھا۔
اس بنا پر احناف، مالکیہ اور شوافع کہتے ہیں کہ اگر آدمی اپنی زمین جائیداد یا دیگر مملوکہ چیزیں اپنی اولاد میں تقسیم کر رہا ہو تو انھیں برابر دینا مستحب ہے، واجب نہیں ۔
راجح رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ آدمی عام حالات میں روپیہ پیسہ خرچ کرنے میں اولاد کے درمیان (بشمول لڑکوں اور لڑکیوں کے) برابری کا معاملہ کرنے کی کوشش کرے، البتہ اگر کوئی مدد کا محتاج ہو تو اس کی خصوصی طور پر مدد کردے،مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے تین لڑکے ہوں دو صاحبِ حیثیت ہوں اور ایک غریب ، یا سب یکساں مالی حیثیت رکھتے ہوں ، لیکن ایک کثیرالعیال ہو، تو اس کی حسبِ ضرورت اضافی مدد کردے۔ البتہ زمین جائیداد کو اگر اپنی زندگی میں اولاد میں تقسیم کرتا ہے، (ان کی ضرورت کے پیش نظر) تو وراثت کے حصوں کے مطابق بھی تقسیم کرسکتا ہے۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے الموسوعۃ الفقہیۃ کویت۱۳؍۳۵۹۔۳۶۱، لفظ ’التسویۃ‘۔)