اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو، اس پر عرصہ بیت گیا ہو، اس کے لڑکے بڑے ہو گئے ہوں اور برسر روزگار ہوں، کیا اس صورت میں وہ اپنی کمائی ہی سے باپ کا مہر ادا کر سکتے ہیں ؟ کیا یہ جائز ہوگا کہ وہ اپنی طرف سے باپ کو کچھ رقم دیں اور کہیں کہ اس سے آپ ہماری ماں کا مہر ادا کر دیجیے؟
جواب
نکاح ہوتے ہی مہر کی ادائیگی شریعت میں لازم کی گئی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً (النساء: 4)
’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو۔ ‘‘
اس لیے نکاح کے بعد جلد از جلد بیوی کو مہر ادا کر دینا چاہیے اور بغیر کسی عذر کے اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں مہر کو دو حصوں میں بانٹ دیا جاتا ہے:
مہر معجل: جسے فوراً ادا کیا جائے۔ مہر مؤجل: جسے بعد میں ادا کیا جائے۔
بعض معاشروں میں طے شدہ مہر ہی سے بہت معمولی رقم مہر معجل کے طور پر دے دی جاتی ہے اور باقی کو مہر مؤجل کہ دیا جاتا ہے۔ جس کی کبھی ادائیگی نہیں کی جاتی۔ بعض معاشروں میں تو پوری رقم زندگی بھر ادا نہیں کی جاتی۔ اس لامحدود تاخیر کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے، بلکہ یہ عورت پر ظلم ہے۔ کیوں کہ نقد کی صورت میں اس رقم کی مالیت کم ہوتی رہتی ہے اور عورت اس کی حق دار ہوتے ہوئے بھی زندگی بھر اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاپاتی ہے۔
عورت کو مہر کی رقم ملنی چاہیے۔ اس کی ادائیگی اصلًا شوہر کے ذمے ہے، لیکن کوئی دوسرا بھی اسے ادا کر سکتا ہے۔ مثلًا شوہر کا باپ یا کوئی دوسرا قریبی رشتے دار۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کافی عرصہ گزر جانے کے باوجود مہر ادا نہ کیا ہو اور لڑکے بڑے ہو گئے ہوں تو وہ بھی اپنے باپ کی طرف سے مہر کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔