ایک خاندان اپنے آبائی گاؤں سے ساٹھ(۶۰) کلومیٹر دوٗر ایک شہر میں مستقل رہنے لگا، جہاں اس کا اپنا ذاتی مکان اورگھر گرہستی ہے۔ اسی گھر میں رہتے ہوئے شوہر کا اچانک انتقال ہوگیا۔ خاندان کے لوگوں نے مناسب سمجھا کہ متوفی کی تدفین اپنے آبائی گاؤں کے آبائی قبرستان میں ہو۔ اب تدفین کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ متوفی کی بیوہ چاہتی ہیں کہ وہ اسی شہر میں واپس لوٹ جائیں جہاں شوہر کی زندگی میں ان کے ساتھ رہتی تھیں اور عدّت کے باقی ایام وہیں گزاریں۔ اس میں گھر کی نگرانی اوردیگر امور کی انجام دہی آسان ہے۔ بعض خواتین اس کو معیوب اور شریعت کے خلاف بتا کر ایسا کرنے سے روک رہی ہیں۔ براہِ کرم اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں کہ کیا وہ خاتون نقلِ مکانی کرکے اپنے شہر والے گھر میں عدّت کے باقی ایام گزار سکتی ہے؟
جواب
عدّت کے احکام قرآن و حدیث میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ان میں اس کی بھی صراحت ہے کہ شوہر کی وفات کے بعد بیوہ عورت عدّت کہا ں گزارے گی۔ سورۂ طلاق میں عدّت کے عمومی احکام کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِہِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ (الطلاق۱)
’’نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابوسعید خدریؓ کی بہن حضرت فریعہ بنت مالکؓ کے شوہر کو کچھ لوگوں نے قتل کردیا۔ وہ اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا’’میرے شوہر کسی گھر کے مالک نہیں ہیں اور انھوں نے کچھ چھوڑا بھی نہیں ہے، جس سے میری گزر بسر ہو سکے۔ کیا میں اپنے ماں باپ کے گھر جاکر عدّت گزار سکتی ہوں؟‘‘ آپؐ نے پہلے تو اجازت دے دی، لیکن بعد میں انہیں بلا کر حکم دیا کہ جہاں شوہر کی وفات کے وقت تھیں وہیں رہ کر عدّت گزاریں۔‘‘ (موطا مالک۱۷۲۹)
خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفانؓ کے زمانے میں اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تو انھوں نے حضرت فریعہؓ کو بلا کر دریافت کیا کہ انہیں اللہ کے رسول ﷺ نے کیا حکم دیا تھا؟ انھوں نے تفصیل بتائی تو اسی کے مطابق انھوں نے فیصلہ کردیا اور تمام صحابہ نے اس سے اتفاق کیا۔ (موطا، حوالہ سابق)
صحابۂ کرام میں سے حضرت عمرؓ، ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ ؓ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت ام سلمہؓ اور تابعین میں سے ثوریؒ اور اوزاعیؒ کی یہی رائے ہے۔
اس بنا پرجمہور فقہاء کے نزدیک عورت عدّت اسی جگہ گزارے گی جہاں وہ شوہر کی زندگی میں اور اس کی وفات سے قبل اس کے ساتھ رہتی تھی، یا اگر شوہر ساتھ میں نہیں رہتا تھا تو اس کی وفات کی خبر آنے کے وقت بیوی جہاں رہتی تھی وہیں عدّت گزارے گی۔ البتہ اگر عورت کہیں گئی ہوئی ہو اور اچانک اسے شوہر کی وفات کی خبر ملے تو وہ فوراً اپنے گھر، جہاں وہ شوہر کے ساتھ رہتی تھی، واپس چلی جائے گی اور وہیں عدّت گزارے گی۔ یہی حکم اس صورت کا بھی ہوگا کہ زوجین ملازمت یا کسی اور وجہ سے آبائی وطن کے علاوہ اور کہیں رہتے ہوں، شوہر کا انتقال ہونے پر اس کے خاندان والے تدفین کے لیے اسے اس کے آبائی وطن لے جائیں، بیوی اس کے ساتھ جائے، تو تدفین سے فارغ ہونے کے بعدوہ وہیں آجائے گی جہاں وہ شوہر کے ساتھ رہتی تھی اور وہیں عدّت گزارے گی۔
صحابۂ کرام میں سے حضرت علیؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت جابرؓ، حضرت عائشہؓ اور تابعین میں سے ابن زیدؒ، حسن بصریؒ اور عطاؒ کی رائے ہے کہ عورت جہاں چاہے اور جہاں اسے سہولت ہو، وہاں عدّت گزار سکتی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ تقسیمِ میراث کا حکم آجانے کے بعد ’سکنیٰ‘ کا حکم ساقط ہوگیا۔ وہ وراثت کی مستحق ہوگی اور جہاں چاہے، عدّت گزار سکتی ہے۔
میری رائے میں عام حالات میں عورت کو وہیں عدّت گزارنی چاہیے جہاں وہ شوہر کی زندگی میں اور اس کی وفات سے قبل رہتی تھی، البتہ اگر دورانِ عدّت وہاں رہنے میں کوئی دشواری اور زحمت ہو، مثلاً وہاں اس کے ساتھ رہنے والا اور کوئی نہ ہو، وہاں اس کا تنہا رہنا پُرخطر ہو، یا اور کوئی عذر ہو تو اس کے لیے کسی دوسری پُرامن، محفوظ اور سہولت والی جگہ منتقل ہوکر وہاں عدّت گزارنا درست ہوگا۔