میری بیوی حمل سے ہے، جب کہ پہلے سے ایک بچی ہے، جو ابھی ایک برس کی ہوئی ہے۔ کیا وہ اسے دودھ پلانا جاری رکھ سکتی ہے یا اب بند کر دینا چاہیے؟ بعض حضرات دورانِ حمل بچے کو دودھ پلانے سے منع کرتے ہیں۔ بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں۔
جواب
قرآن مجید میں بچے کی ولادت کے بعد دودھ پلانے کی مدت دو سال بیان کی گئی ہے۔ سورہ بقرہ آیت ۲۳۳ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ ترجمہ: ’’مائیں اپنے بچوں کو مکمل دو برس دودھ پلائیں، اگر باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد پوری مدّتِ رضاعت تک دودھ پیے۔‘‘
اس کا تعلق رضاعت سے ہے کہ اس کے شرعی احکام دو سال تک دودھ پینے سے متعلق ہوں گے، ورنہ اگر ضرورت متقاضی ہو تو بچے کو دو برس کے بعد بھی کچھ زیادہ مدت تک دودھ پلایا جا سکتا ہے اور اس سے پہلے بھی دودھ چھڑوایا جا سکتا ہے۔
عہدِ نبوی میں یہ تصوّر عام تھا کہ اگر عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہو، اسی دوران میں وہ حاملہ ہو جائے تو اس کا دودھ فاسد ہو جاتا ہے۔ اس فاسد دودھ کو پینے سے بچے کی صحت متاثر ہوتی ہو سکتی ہے۔ لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے اس تصور کی تردید فرمائی اور دورانِ حمل دودھ پلانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ حضرت جدامة بنت وہب الاسدیةؓ بیان کرتی ہے کہ میں ایک وفد کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے آپؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
“میں نے ارادہ کیا تھا کہ ‘غیلہ’ (دورانِ حمل دودھ پلانے) سے منع کر دوں، لیکن میں نے دیکھا کہ روم و فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں۔ ان کے یہاں عورتیں حمل کے ایام میں بھی اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، لیکن اس سے ان کے بچوں کی صحت متاثر نہیں ہوتی، اس لیے میں نے منع نہیں کیا۔ ”[مسلم:۱۴۴۲]
اس سے معلوم ہوا کہ شرعی طور پر حمل کے دوران میں بچے کو دودھ پلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بچے کو دودھ پلانے کے ساتھ غذا کا بھی عادی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور جوں جوں غذا میں اضافہ ہو آہستہ آہستہ دودھ کم کرنا چاہیے۔ اوپر کا دوددھ بھی پلایا جا سکتا ہے، تاکہ بچے کی غذائیت میں کمی نہ ہو اور اس کی پرورش و پرداخت احسن طریقے پر ہو۔