جواب
سورۂ قصص کی آخری آیت میں ہے: کُلُّ شَـْیئٍ ھَالِکٌ اِلاَّ وَجْھَہٗ اس کا سیدھا سا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ ہر چیز کو فنا ہونا ہے۔ صرف اسی کی ذات کو ابدیت حاصل ہے۔ اس مفہوم کی متعدد آیات قرآن میں ہیں ، مثلاً:
کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ (آل عمران:۱۸۵) ’’آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے۔‘‘ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَ یَبْقٰی وَجَہُ رَبِّکَ ذُوْ الْجَلاَلِ وَالْاِکْرَامِ(الرحمن:۲۶)’’ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہوجانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔‘‘
اس آیت کا تعلق دنیا سے ہے۔ یعنی دنیا میں جتنے جان دار ہیں ، سب کو ایک نہ ایک دن مرنا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے اس کی تفسیر میں ایسا ہی قول مروی ہے:
کُلُّ حَیٍّ مَیِّتٌ اِلاَّ وَجْھَہٗ یعنی ہر جان دار کو مرنا ہے سوائے اس (اللہ) کی ذات کے۔ (روح المعانی:۲۰/۱۳۱)
چوں کہ فرشتے بھی جان دار مخلوق ہیں ، اس لیے اس آیت کا اطلاق ان پر بھی ہونا چاہیے۔ ابن مردَوَیْہ نے حضرت ابن عباسؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جب آیت کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ نازل ہوئی تو کسی نے سوال کیا: کیا فرشتوں پر بھی موت طاری ہوگی؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کُلُّ شَـْیئٍ ھَالَکٌ اِلاَّ وَجْھَہٗ۔ معلوم ہوا کہ ملائکہ، جن و انس، حیوانات اور تمام ذوی الارواح کو موت آئے گی۔ (روح المعانی۲۰/۱۳۱)
آپ نے سورۂ نمل اور سورۂ زمر کی آیات کا حوالہ دیا ہے؛ وہ آیات یہ ہیں :
وَ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ مَنْ شَآئَ اللّٰہُ (النمل:۸۷)
’’اور کیا گزرے گی اس روز جب کہ صور پھونکا جائے گا اور ہول کھا جائیں گے وہ سب، جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ، سوائے ان لوگوں کے، جنھیں اللہ اس ہول سے بچانا چاہے گا۔‘‘
وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ مَنْ شَآئَ اللّٰہُ (الزمر:۶۸)
’’اور اس روز صور پھونکا جائے گا اور وہ سب مرکر گرجائیں گے، جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ، سوائے ان کے جنھیں اللہ زندہ رکھنا چاہے۔‘‘
سورۂ نمل میں ’نفخ صور‘ کے نتیجے میں آسمان و زمین کی تمام مخلوقات کے ’فزع‘ اور سورۂ زمر میں ان کے ’صعق‘ کا ذکر ہے۔ دونوں آیتوں میں ’’الاّ مَنْ شَآئَ اللّٰہُ‘‘ کے ذریعے بعض افراد کو اس کیفیت سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ’فزع اور صعق‘ ایک ہی کیفیت کی دو مختلف تعبیریں ہیں ۔ لیکن علامہ ابن کثیرؒ نے دونوں کو علیٰحدہ علیٰحدہ کیفیتیں قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک وقت ِقیامت پہلی مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو تمام مخلوقات پر فزع (گھبراہٹ) کی کیفیت طاری ہوگی۔ (تفسیر القرآن العظیم، ۳/۴۹۷) اس سے کچھ افراد مستثنیٰ ہوں گے۔ یہ کون لوگ ہوں گے؟ ان کا تذکرہ سورۂ نمل کی اگلی آیت ۸۹ ہی میں ہے: مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیْرٌ مِّنْھَاج وَ ھُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍ اٰمِنُوْنَo (جو شخص بھلائی لے کر آئے گا، اسے اس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اس دن کے ہول سے محفوظ ہوں گے) اسی طرح اللہ کے نیک بندوں کا تذکرہ سورۂ انبیاء آیت ۱۰۳ میں یوں ہے: لاَ یَحْزُنُھُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ (وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت ان کو ذرا پریشان نہ کرے گا)۔
دوسری مرتبہ صور پھونکے جانے کا ذکر سورۂ زمر کی آیت ۶۸ میں ہے۔ اس وقت آسمان و زمین کی تمام مخلوقات پر ’صعق‘ کی کیفیت (یعنی موت) طاری ہوگی۔ بعض افراد اس کیفیت سے بھی مستثنیٰ رہیں گے۔ احادیث میں اس کی صراحت نہیں ہے کہ یہ کون لوگ ہوں گے؟ بعض حضرات نے ان سے حضرت جبرئیل، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل اور ملک الموت مراد لیے ہیں ۔ بعض نے ان میں حملۃ العرش یعنی عرش الٰہی کو اٹھانے والے فرشتوں کو بھی شامل کیا ہے اور بعض کے نزدیک انبیاء و شہدا بھی مراد ہیں ۔ (تفسیر مولانا شبیر احمد عثمانی)
ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ تمام زندہ بچ جانے والوں کی روحیں قبض کرلے گا، یہاں تک کہ سب سے آخر میں ملک الموت پر بھی موت طاری ہوجائے گی اور صرف اللہ تعالیٰ کی تنہا ذات رہ جائے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ سب سے پہلے حضرت اسرافیل علیہ السلام کو زندہ کرے گا اور انھیں صور پھونکنے کا حکم دے گا۔ یہ تیسرا نفخہ ہوگا، جس پر تمام مخلوقات زندہ ہوکر میدان حشر میں اللہ کے حضور اکٹھا ہوں گی۔ اس کا تذکرہ اس آیت میں ہے:
ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ھُمْ قِیَامٌ یَنْظُرُوْنَ (الزمر:۶۸)
’’پھر ایک دوسرا صور پھونکا جائے گا اور یکایک سب کے سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔‘‘
(تفسیر القرآن العظیم، ۴/۸۰۱)
صور کتنی مرتبہ پھونکا جائے گا؟ اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے دو، بعض نے تین، بعض نے چار اور بعض نے اس سے زائد مرتبہ نفخ صور کا تذکرہ کیا ہے۔
اس تشریح سے واضح ہوا کہ سورۂ نمل اور سورۂ زمر کی آیات کا اپنا اپنا موقع و محل ہے اور ایک وقت ایسا بھی ہوگا جب سورۂ قصص کی آخری آیت(۸۸) کے بہ موجب تمام مخلوقات پر موت طاری ہوگی۔
جنت و جہنم کی ابدیت کے سلسلے میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے، وہ صحیح ہے۔ بس اتنی ترمیم کرلیجیے کہ اہل جنت اور اہل جہنم کے سامنے موت کے فرشتے کو نہیں ، بلکہ موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لاکر ذبح کردیا جائے گا۔ یہ گویا اس بات کی علامت ہوگی کہ اب کسی کو موت نہ آئے گی۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
’’موت کو ایک بھورے رنگ کے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ایک منادی کرنے والا ہوگا جو پکارے گا: ’’اے جنت کے باسیو!‘‘ اہل جنت اپنے بالا خانوں سے جھانکیں گے۔ منادی کرنے والا پوچھے گا: ’’کیا اسے پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے: ’’ہاں ، یہ موت ہے۔‘‘ ہر جنتی اسے دیکھ لے گا۔ پھر منادی کرنے والا پکارے گا: ’’اے جہنمیو!‘‘ اس کی پکار پر تمام جہنمی اس کی طرف دیکھیں گے۔ وہ پوچھے گا: ’’کیا اسے پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے: ’’ہاں یہ موت ہے؟‘‘ پھر وہ اس مینڈھے کو ذبح کردے گا۔ اس کے بعد اعلان کرے گا: ’’اے اہل جنت! اب تمھارے لیے ہمیشگی ہے۔ اب تمھیں کبھی موت نہ آئے گی۔ اور اے اہل جہنم! اب تمھارے لیے بھی ہمیشگی ہے۔ اب تمھیں کبھی موت نہ آئے گی۔‘‘ اس کے بعد آں حضرت ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَ اَنْذِرْھُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ وَّھُمْ لاَ یُوْمِنُوْنَo (مریم:۳۹)
’’اے نبیؐ! اس حالت میں جب کہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لا رہے ہیں ؛ انھیں اس دن سے ڈراؤ جب کہ فیصلہ کردیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، حدیث: ۴۷۳۰، صحیح مسلم، کتاب الجنۃ، حدیث: ۲۸۴۹ یہ حدیث جامع ترمذی، سنن دارمی اور مسند احمد میں بھی مروی ہے)