کیا شوہر سے نفرت کی وجہ سے مطالبۂ خلع جائز ہے ؟

,

میرے شوہر بہت سگریٹ پیتے ہیں، جس سے مجھے حد درجہ کراہیت ہوتی ہے۔ میری شادی کو سات سال ہو چکے ہیں۔ بچے نہیں ہیں۔ ڈاکٹر وجہ بھی یہی بتاتے ہیں۔

اگر بیوی سے اولاد نہ ہورہی ہو تو شوہر کو حق ہے کہ وہ دوسری شادی کرلے، پھر کیا میں سگریٹ کی کراہیت کی وجہ سے اور لاولدی کے اسباب معلوم ہونے کے بعد اپنے شوہر سے خلع نہیں لے سکتی؟

نفسیاتی طور پر میں بہت پریشان ہوں، لیکن میرے والدین میرا درد نہیں سمجھتے۔ ہم دونوں میاں بیوی میں اکثر لڑائی ہوتی رہتی ہیں۔ میں ان کے سگریٹ پینے کی وجہ سے ان سے نفرت کرنے لگی ہوں، باوجود ان سب کے وہ نہ میری سنتے ہیں، نہ ہی سگریٹ پینا چھوڑتے ہیں۔ مسئلہ ہذا کے سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیے۔

جواب

سگریٹ پینا انسانی صحت کے لیے بہت مضر ہے۔ اس میں نکوٹین (Nicotine) نامی ایک کیمیاوی مادّہ ہوتا ہے، جو انسانی جسم کے لیے ضرر رساں ہوتا ہے – اس کا سب سے زیادہ اثر پھیپھڑوں پر پڑتا ہے کہ اس کے خلیے (Cells) بالکل گل سڑ جاتے ہیں – اگر کوئی شخص، جس نے عرصے تک سگریٹ نوشی کی ہو، اپنے پھیپھڑوں کا ایکسرے دیکھ لے تو وہ سگریٹ نوشی سے توبہ کرلے گا – کتنی عجیب بات ہے کہ سگریٹ کی ہر ڈبّی پر لکھا ہوا ہوتا ہے : smoking is injurious to health (سگریٹ پینا مضر ِصحت ہے ) لیکن سگریٹ پینے والے اس جانب توجہ نہیں دیتے، بلکہ بہت سے ڈاکٹر بھی، جو صحتِ عامّہ کی ترویج و اشاعت سے وابستہ ہیں نیز علاج معالجہ کی خدمات انجام دیتے ہیں، اِس بُری اور مُضر صحت لَت کا شکار ہوتےہیں۔ یہ عادت یوں تو بُری ہے ہی، لیکن جب اس کا دائرہ اثر اپنی ذات سے نکل کر دوسروں تک پہنچنے لگے تو اس کی ناپسندیدگی مزید بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے پبلک مقامات پر واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ’یہاں سگریٹ پینا منع اور قابلِ تعزیر ہے‘ –

زوجین کا تو ایک دوسرے سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے لیےلباس اور یک جان دو قالب ہوتے ہیں – انہیں ایک دوسرے کی پسند و ناپسند کا پورا خیال رکھنا چاہیے۔ شوہر کو سوچنا چاہیے کہ اگر بیوی کسی ایسی عادت میں مبتلا ہو جو شوہر کو سخت ناگوار ہو اور وہ اس کے بار بار منع کرنے کے باوجود اسے ترک نہ کرے تو اسے کتنا بُرا لگے گا۔ اسی طرح اگر شوہر کی کوئی عادت بیوی کو اس حد تک ناگوار ہو کہ بات نفرت تک جا پہنچی ہو تو شوہر کو اسے لازماً ترک کر دینا چاہیے۔

محبت میں آدمی جائز چیزیں بھی چھوڑ دیتا ہے، یہ تو ایک ناپسندیدہ اور مکروہ چیز کو چھوڑنے کی بات ہے –

ازدواجی رشتے کی بنیاد محبّت و مودّت پر رکھی گئی ہے۔ اگر محبّت باقی نہ رہے تو یہ رشتہ زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکتا۔ اسلام شوہر اور بیوی دونوں کو حکم دیتا ہے کہ معمولی نا ہم واریوں اور مزاجی اختلاف کو گوارا کریں اور رشتے کو باقی رکھنے کی کوشش کریں، لیکن اگر تلخیاں اور تنازعات بہت زیادہ بڑھ جائیں اور رشتے میں خوش گواری باقی نہ رہے تو وہ اسے ختم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام نے بیوی کو حق دیا ہے کہ اگر اسے کسی سبب سے شوہر سے نفرت ہوگئی ہے تو وہ خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے۔

عہدِ نبوی کا مشہور واقعہ ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی (جن کا نام کتابوں میں حبیبہ بنت سہل یا جمیلہ بنت ابی مذکور ہے) اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا :

اے اللہ کے رسول! میں اپنے شوہر کے دین اور اخلاق کے بارے میں ان پر کوئی الزام نہیں لگاتی، لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں (یعنی میں انہیں ناپسند کرتی ہوں، ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی) آپ نے دریافت فرمایا :

اُس نے تمہیں مہر میں جو باغ دیا تھا اسے واپس کرنا ہوگا – انھوں نے کہا : میں تیار ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ثابت کو بُلا کر حکم دیا :’’ طلاق دے دو، تمہارا باغ تمہیں واپس مل جائے گا۔ ‘‘ (بخاری : 5273 و دیگر ابواب)

حدیث میں کچھ ذکر نہیں کہ حضرت ثابت کی بیوی کے دل میں ان سے کیوں نفرت پیدا ہوگئی تھی؟ اللہ کے رسول ﷺ نے نفرت کا سبب جاننے کی کوشش نہیں کی۔ بس جب آپ کو قطعی طور پر معلوم ہوگیا کہ بیوی کے دل میں شوہر سے نفرت گھر کیے ہوئے ہے، جس کے زائل ہونے کی امید نہیں ہے تو آپ ﷺ نے علیٰحدگی کروادی۔

آج کل بیوی کے مطالبۂ خلع پر بہت سے شوہر اس سے کہہ دیتے ہیں کہ میں طلاق دوں گا نہ مطالبۂ خلع منظور کروں گا، تم کو جو کرنا ہو کرلو۔ جان لیجیے یہ طریقہ اسلام کی عائلی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ بیوی علیٰحدگی چاہتی ہو تو یا تو شوہر اس کی خوشامد کرے اور منّت سماجت کرکے اسے نکاح میں باقی رہنے پر آمادہ کرے، لیکن اگر وہ علیٰحدگی پر مُصر اور بہ ضد ہو تو شوہر کے لیے اس کے مطالبے کو مان لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔

اگر شوہر طلاق دے رہا ہو، نہ مطالبۂ خلع کو منظور کررہا ہو تو عورت کسی دار القضاء سے رجوع کرکے اپنا نکاح فسخ کرواسکتی ہے۔

Fabruary 2025