جواب
نو مولود کی طرف سے جانور ذبح کرنے کو عقیقہ کہا جاتا ہے۔ حدیث کے مطابق عقیقہ بچے کی پیدایش کے ساتویں دن، اگر اس دن نہ ہوسکے تو چودھویں دن اور اس دن بھی نہ ہوسکے تو اکیسویں دن کرنا چاہیے۔ (بیہقی) اگر اس دن بھی نہ ہوسکے تو بعد میں جب بھی توفیق ہو، عقیقہ کیا جاسکتا ہے۔ فقہاء نے عقیقے کو مسنون قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ کروایا تھا (ابو داؤد: ۳۸۴۱، نسائی: ۴۲۱۳، ۴۲۱۹) لیکن یہ کوئی تاکیدی حکم نہیں ہے۔ اس لیے کہ کسی روایت میں مذکور نہیں کہ آپؐ نے اپنے صاحب زادے ابراہیم کا عقیقہ کیا ہو۔
عقیقے میں جانور ذبح کرنے کے ساتھ بچے کے بال منڈانے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَعَ الْغُلاَمِ عَقِیْقَۃٌ، فَاَھْرِیْقُوا عَنْہُ دَمًا وَ أمِیْطُوا عَنْہُ الأذَیٰ۔
(بخاری: ۵۴۷۲)
’’بچے کا عقیقہ کرنا چاہیے۔ اس کی طرف سے خون بہاؤ (یعنی جانور ذبح کرو) اور اس سے گندگی دور کرو۔‘‘
حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ گندگی دور کرنے سے مراد سر کے بال منڈانا ہے۔
(ترمذی: ۲۸۴۰)
حضرت علی بن ابی طالبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن کے عقیقے کے موقع پر ایک بکری ذبح کی اور فرمایا: ’’اے فاطمہ! اس کا سر منڈاؤ اور اس کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرو۔‘‘ (ترمذی: ۱۵۱۹، احمد ۶/۳۹۰، ۳۹۲)
اسی وجہ سے جمہور فقہاء بچے کے سر کے بال منڈانے کو مستحب قرار دیتے ہیں ۔ البتہ احناف کہتے ہیں کہ یہ مباح ہے۔ نہ سنت ہے نہ واجب۔
(الفتاوی البزازیۃ علی ھامش الفتاوی الھندیۃ، بولاق ۶/۳۷۱)
یہ حکم عام حالات میں ہے۔ جو لوگ سر منڈانے کے استحباب کے قائل ہیں ، ان کے نزدیک بھی مرض کی صورت میں سر منڈائے بغیر عقیقہ ہوجائے گا اور شرعی اعتبار سے اس میں کوئی کمی نہیں واقع ہوگی۔