جواب
اس مسئلے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ احناف، شوافع اور حنابلہ کہتے ہیں کہ عورت کے لیے دورانِ حیض قرآن پڑھنا جائز نہیں ہے۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا
لَا تَقرَأُ الحَائِضُ وَلَا الجُنُبُ شَیئاً مِّنَ القُرآنِ
(ترمذی۱۳۱، ابن ماجہ ۵۹۵)
’’حائضہ عورت اور جنبی (مرد و عورت) کچھ بھی قرآن نہ پڑھیں ۔‘‘
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ۔ تمام محدثین نے اس کا ضعف بیان کیا ہے۔ امام ترمذیؒ نے یہ حدیث درج کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’ اس موضوع کی روایت حضرت علیؓ سے بھی مروی ہے۔ابن عمرؓ کی اس روایت کو ہم صرف اسماعیل بن عیاش عن موسیٰ بن عقبہ عن نافع عن ابن عمر کی سند سے جانتے ہیں ۔ صحابہ، تابعین اور بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہلِ علم، مثلاً سفیان ثوریؒ، ابن مبارکؒ، شافعیؒ، احمدؒ، اسحاقؒ کی یہی رائے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حائضہ اور جنبی قرآن نہیں پڑھ سکتے، ہاں آیت کا ٹکڑا یا لفظ زبان سے ادا کر سکتے ہیں ۔ البتہ یہ حضرات جنبی اور حائضہ کے لیے سبحان اللہ اور لا الٰہ الا اللہ جیسے کلمات کہنے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ میں نے محمد بن اسماعیل (بخاریؒ) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسماعیل بن عیاش اہلِ حجاز اور اہلِ عراق سے منکر روایات بیان کرتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک اگر اسماعیل بن عیاش ان لوگوں سے روایت کرنے میں تنہا ہو تو اس کی روایت ضعیف ہوگی۔‘‘
یہ حضرات یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ حیض اور جنابت کا شمار’ حدثِ اکبر‘(بڑی ناپاکی) میں ہوتا ہے۔صحیح احادیث میں حالت جنابت میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔حیض کی ناپاکی جنابت سے بڑھ کر ہے، اس لیے جو حکم جنابت کا ہے وہ حیض کا بدرجۂ اولیٰ ہونا چاہیے۔
ناجائز کہنے والوں کے نزدیک تفصیلات میں کچھ اختلاف ہے، جس سے جواز کی بعض صورتوں کا اشارہ ملتا ہے۔ احناف کہتے ہیں کہ حائضہ عورت آیت قرآنی کا کوئی ٹکڑا ذکر اور دعا کے طور پر پڑھ سکتی ہے، اسی طرح معلّمہ دورانِ حیض بچوں کو پڑھانے کے لیے آیت کا ایک ایک لفظ الگ الگ کرکے پڑھا سکتی ہے۔ شوافع کہتے ہیں کہ حائضہ عورت بغیر زبان ہلائے دل میں قرآن پڑھ سکتی ہے۔حنابلہ کہتے ہیں کہ پوری آیت تو پڑھنا جائز نہیں ، البتہ وہ آیت کا ٹکڑا پڑھ سکتی ہے۔اسی طرح وہ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ،اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ، اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن یا سواری پر بیٹھنے کی دعا پڑھ سکتی ہے۔
مالکیہ کے نزدیک حائضہ عورت مصحف چھوئے بغیر قرآن پڑھ سکتی ہے۔ان کا استدلال درج ذیل احادیث سے ہے:
حضرت علی بن ابی طالبؓ بیان کرتے ہیں : اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ یُقرِئُنَا القُرآنَ وَ لَا یَحجُبُہُ عَنِ القُرآنِ شَیْئٌی لَیسَ الجَنَابَۃِ (ابوداؤد۲۲۹،ترمذی۱۴۶،نسائی۲۶۵، ابن ماجہ۵۹۴)
’’رسول اللہﷺ ہمیں قرآن پڑھاتے تھے۔ جنابت کے علاوہ کوئی چیز آپ کو قرآن پڑھنے سے نہیں روکتی تھی۔‘‘
مشہور حدیث ہے کہ سفر حج کے دوران ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کو حیض آگیا۔ وہ رونے لگیں کہ اب حج نہیں کر پائیں گی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں تسلی دی۔ اس موقع پر آپؐنے فرمایا
فَاقْضِي مَا یَقضِي الحَاجُّ ، غَیرَ أن لَا تَطُوفِي بِالبَیتِ
(بخاری۲۹۴،مسلم۱۲۱۱)
’’ وہ سب کرو جو حاجی کرتا ہے، بس طواف نہ کرو۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حائضہ عورت کو صرف طواف سے روکا ہے، جو نماز کے حکم میں ہوتا ہے، دیگر کاموں کی اجازت دی ہے۔
مالکیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جنابت اور حیض دونوں ’حدث اکبر‘ میں سے ہیں ،جو غسل کا متقاضی ہوتا ہے، لیکن دونوں کی حالت یکساں نہیں ہے۔ جنابت کی مدّت مختصر ہوتی ہے، جب کہ حیض کی مدّت طویل ہوتی ہے۔اس مدت میں وہ قرآن نہ پڑھنے سے اسے بھول سکتی ہے، اس لیے اس سے اسے روکنا مناسب نہیں ہے۔
علامہ ابن تیمیہؒ کی بھی یہ رائے ہے۔ وہ کہتے ہیں
’’حائضہ عورت کو قرآن پڑھنے سے روکنے کے سلسلے میں صریح اور صحیح نصوص نہیں ہیں ۔ عہد نبوی میں عورتیں حیض سے ہوتی تھیں تو انہیں اللہ کے رسول ﷺ قرآن پڑھنے سے روکتے تھے نہ ذکر و دعا سے۔‘‘
علامہ شوکانی ؒ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے ممانعت پر دلالت کرنے والی حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:’’ یہ حدیث اسماعیل بن عیاش سے مروی ہے۔اہل حجاز سے اس کی روایات ضعیف ہوتی ہیں اور یہ روایت بھی انہی میں سے ہے۔‘‘ اس کے بعد متعدد محدثین کا حوالہ دیا ہے جنھوں نے اسے ضعیف کہا ہے۔آگے لکھا ہے:’’اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حائضہ عورت قرآن نہیں پڑھ سکتی۔متعدد حضرات کی یہی رائے ہے، لیکن اس کی دلیل کے طور پر اس حدیث کو پیش کرنا درست نہیں ۔اس بنا پر بغیر کسی دلیل کے حائضہ عورت کے لیے قرآن پڑھنے کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
(نیل الاوطار،محمد بن علی شوکانی،القدس للنشر و التوزیع، القاہرۃ، ۱۴۳۲ھ؍۲۰۱۲ء۱/۲۶۳۔۲۶۴)
میرے نزدیک یہ رائے زیادہ قوی معلوم ہوتی ہےکہ عورت دورانِ حیض قرآن پڑھ سکتی ہے۔ ■