کیا عید کی نماز اگلے دن پڑھی جاسکتی ہے؟

امسال رمضان المبارک کی ۲۹؍ تاریخ کو چاند نظر آگیا اور اگلے دن عید الفطر ہونے کا اعلان کردیا گیا۔ لیکن عید کے دن صبح ہی سے زبردست بارش ہونے لگی، جو دیر تک ہوتی رہی۔ سڑکیں ، راستے اور میدان پانی سے بھر گئے۔ بالآخر عیدگاہ کے امام صاحب نے اعلان کردیا کہ آج عید کی نماز نہیں پڑھی جائے گی، اس کے بجائے کل نماز ہوگی۔ اس سلسلے میں لوگوں میں اختلاف ہوگیا اور دو گروپ بن گئے۔ کچھ لوگوں نے امام صاحب کی تائید کی، جب کہ دوسرے لوگوں نے کہا کہ عید کا دن گزر جانے کے بعد اگلے دن اس کی نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے۔ بہ راہ کرم اِس مسئلے میں صحیح بات واضح فرمائیں ۔ کیا عید کی نماز کسی عذر کی بِنا پر عید کے اگلے دن پڑھنا درست ہے؟
جواب

عید کی نماز کا وقت طلوع آفتاب کے تھوڑی دیر بعد سے زوال آفتاب تک ہے۔ اگر عید کے دن اس وقت کے دوران نماز ادا نہ کی جاسکے تو کیا اگلے دن اس کی ادائیگی کی جاسکتی ہے؟ اس کی تین صورتیں ہیں :
۱- اگر عید کے دن لوگوں نے جماعت کے ساتھ عید کی نماز ادا کرلی ہو، صرف چند افراد کی نماز ِ عید چھوٹ گئی ہو تو احناف اور مالکیہ کے نزدیک اس کی قضا نہیں ہوگی، شوافع قضا کرنے کی اجازت دیتے ہیں ، حنابلہ کہتے ہیں کہ عید کی نماز کی اصلاً قضا نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص پڑھنا ہی چاہے تو چار رکعتیں ایک سلام سے یا دو سلام سے پڑھ لے۔
۲- اگر کوئی عذر نہ ہو لیکن عید کی نماز عید کے دن نہ پڑھی گئی ہو، تو عید الفطر کی صورت میں اس کی قضا نہیں ہوگی، البتہ عید الاضحی کی صورت میں اگلے دن اس کی قضا کرلی جائے گی۔
۳- اگر کسی عذر کی بنا پر عید کے دن نماز ِ عید ادا نہ کی جاسکی ہو، مثلاً چاند ہونے کی خبر کی تصدیق زوال ِ آفتاب کے بعد ہوسکی ہو، یا مسلسل بارش ہوتی رہی ہو تو مالکیہ کہتے ہیں کہ اگلے دن اس کی قضا نہیں کی جائے گی، لیکن احناف، شوافع اور حنابلہ اگلے دن قضا کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ عہد نبوی کے ایک واقعہ سے اس کی تائید ہوتی ہے:
ایک مرتبہ رمضان المبارک کی ۲۹؍ تاریخ کو چاند نظر نہیں آیا تو صحابۂ کرام نے تیسواں روزہ رکھ لیا، لیکن شام کو ایک قافلہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جس نے گواہی دی کہ وہ گزشتہ روز چاند دیکھ چکا ہے۔ آں حضرت ﷺ نے اس کی بات مان لی، صحابۂ کرام کو حکم دیا کہ روزہ توڑ دیں اور اگلے دن نماز ِ عید اداکرنے کا حکم دیا۔
یہ روایت امام ابو داؤد نے اپنی صحیح (۱۱۵۷) میں بیان کی ہے اور علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دار قطنی (۲؍۱۷۰) نے بھی اس کی روایت کی ہے اور اسے حسن کہا ہے۔ ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں اس کی تخریج کی ہے۔ مشہور ناقدین ِحدیث: ابن المنذر، ابن السکن، ابن حزم، خطابی اور ابن حجر وغیرہ نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہوتاہے کہ اگر کسی عذر کی بنا پر عید کے دن نماز ِ عید نہ پڑھی جاسکے تو اگلے دن اس کی ادائیگی کی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (۱)