جواب
فقہ و فتاویٰ کی کتابیں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے پر فقہاء احناف کے دو گروپ ہیں ۔ کچھ علماء غیر مسلم ممالک میں سودی لین دین کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک یہ وہ ’ربا‘ نہیں ہے، جس سے قرآن و حدیث میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ جب کہ دیگر اسے ناجائز قرار دیتے ہیں اور اس کی حرمت کا فتویٰ صادر کرتے ہیں ۔ یہ اختلاف فقہاے احناف میں ابتدا ہی سے پایا جاتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگرد امام محمدؒ جواز کے قائل ہیں ، جب کہ ان کے دوسرے شاگرد امام یوسفؒ کے نزدیک یہ حرام اور ممنوع ہے۔ دیگر فقہاء: امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک بھی سودی کاروبار، خواہ کسی مسلم ملک میں ہو یا غیر مسلم ملک میں ، ہر حال میں حرام ہے۔ یہ بحث فقہ حنفی کی تمام مشہور کتابوں میں ملتی ہے۔ مثلاً ملاحظہ کیجیے السیر الکبیر (سرخسی)، المبسوط (سرخسی)، المختصر (قدوری)، الہدایہ (مرغینانی)، فتح القدیر (ابن ہمام)، کنز الدقائق (نسفی)، البحر الرائق (ابن نجیم)، فتاویٰ عالم گیری اور رد المحتار (ابن عابدین شامی) وغیرہ۔ یہ اختلاف فقہاے متاخرین میں بھی پایا جاتاہے۔ چناں چہ مولانا عبد الحی فرنگی محلیؒ (مجموعۃ الفتاویٰ)، مفتی کفایت اللہؒ (کفایت المفتی)، مفتی محمود حسن گنگوہیؒ (فتاویٰ محمودیہ)، مولانا احمد رضا خاں بریلویؒ (فتاویٰ رضویہ) اور بعض دیگر فقہاے احناف نے غیر مسلم ممالک میں غیر مسلموں سے سودی لین دین کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ دونوں فریقوں کے دلائل میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جواز کے قائلین کا موقف کم زور ہے۔ ان حضرات نے عام طور پر اپنی تائید میں یہ حدیث پیش کی ہے:
لاَ رِبَا بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ بَیْنَ اَھْلِ الْحَرْبِ فِیْ دَارِ الْحَرْبِ۔
’’دار الحرب میں مسلمانوں اور اہل حرب کے درمیان ربا نہیں ۔‘‘
اس حدیث کو امام ابوحنیفہؒ نے امام مکحولؒ سے روایت کیا ہے۔ وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ۔ مکحولؒ صغار تابعین میں سے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ درمیان میں صحابی کا نام چھوٹ گیا ہے، یعنی یہ حدیث مرسل ہے۔ اگرچہ احناف اور مالکیہ نے تابعی کی مرسل روایت کو قابل استدلال قرار دیا ہے، لیکن دیگر علماء اس کا شمار حدیث ضعیف کی اقسام میں کرتے ہیں ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ یہ حدیث اپنے مضمون میں صریح نہیں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں نفی نہی کے معنی میں ہو۔ یعنی دار الحرب میں بھی مسلمان اہل حرب کے ساتھ سودی معاملے نہ کریں ۔ جواز کے قائلین نے ایک دلیل یہ بھی دی ہے کہ حرمت ِ ربا کی آیت (آل عمران: ۱۳۰) ۳؍ہجری میں غزوۂ احد کے موقعے پر نازل ہوئی تھی۔ اس وقت حضرت ابن عباسؓ مسلمان ہوچکے تھے اور مکہ میں مقیم تھے۔ وہ اس کے بعد بھی سالوں تک مکہ میں رہے اور وہاں کے مشرکین سے سودی کاروبار کرتے رہے۔ یہ دلیل بھی قوی نہیں ہے۔ اس لیے کہ ممکن ہے کہ مکہ میں رہنے کی وجہ سے انھیں اس حکم کا علم نہ ہوپایا ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں حرمت ِ سود کا حکم اتنے سخت الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ انھیں پڑھ کر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لاَ یَقُوْمُوْنَ اِلّاَ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّط ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوام وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواط فَمَنْ جَآئَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَھٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَط وَ اَمْرُہٗٓ اِلَی اللّٰہِط وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَo (البقرۃ: ۲۷۵)
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں ، ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھو کر باولا کردیا ہو، اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں : ’’تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے۔‘‘ حالاں کہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آیندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آجائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘
اسی سورت میں آگے چند آیتوں کے بعد ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰ امَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ج وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْج لاَ تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَo (البقرۃ: ۲۷۹)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑدو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو، لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمھارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کرلو (اور سود چھوڑدو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘
سورۂ آل عمران میں ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰ امَنُوْا لاَ تَاکُلُوا الرِّبٰوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃًص وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (آل عمران: ۱۳۰)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑدو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پاؤگے۔‘‘
حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الرِّبَا سَبْعُوْنَ جُزْئً ا اَیْسَرُھَا اَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہٗ۔
(بیہقی، شعب الایمان، حدیث: ۳۳۱۵، ابن ماجہ، سنن، حدیث: ۳۷۲۲)
’’سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں ۔ اس کا سب سے کم تر درجہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔‘‘
قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات مطلق ہیں ۔ ان میں مسلمانوں کو سود سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور باز نہ آنے والوں کو شدید وعید سنائی گئی ہے۔ اس بنا پر سودی لین دین چاہے مسلمانوں کے درمیان ہو یا مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان، کسی مسلم ملک میں ہو یا غیر مسلم ملک میں ، ہر جگہ اور ہر حال میں حرام اور ناجائز ہے۔ ماضی قریب کے متعدد اکابر علماء نے یہی فتویٰ دیا ہے۔ مثلاً ملاحظہ کیجیے مولانا رشید احمد گنگوہیؒ (فتاویٰ رشیدیہ) مولانا اشرف علی تھانویؒ (امداد الفتاویٰ)، مولانا مفتی محمد شفیعؒ (امداد المفتین)، مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ (فتاویٰ نذیریہ) اور مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ (فتاوی ثنائیہ) کے فتاوے۔