کیا قرض کی واپسی اضافہ کے ساتھ جائز ہے؟

ایک حدیث نظر سے گزری، جس کا مضمون کچھ یوں ہے: ’’حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ میرا رسول اللہ ﷺ پر کچھ قرض تھا۔ جب آپ نے وہ واپس کیا تو کچھ بڑھا کر دیا۔‘‘ کیا اس سے سود کا جواز نہیں نکل رہا ہے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرض کی واپسی کے وقت اگر بغیر فی صد طے کیے زیادہ دیا جائے تو وہ سود نہیں ہے۔ اگر رسول اللہ ﷺ اپنی خوشی سے حضرت جابرؓ کو کچھ ہدیہ دینا چاہتے تھے تو کیا اسے قرض کی واپسی کے وقت ہی دینا ضروری تھا؟ میں اس حدیث کو قرآن کے مطابق تسلیم کروں یا اس کے خلاف؟ بہ راہ کرم میرے اس اشکال کو رفع فرمادیں ۔
جواب

حدیث ِ رسول اگر صحیح ہو تو اس کے بارے میں توجیہ اور تطبیق کا ذہن بنانا چاہیے، نہ کہ اس پر اعتراض کرنے، شبہ وارد کرنے اور اسے قرآن کے خلاف سمجھ کر رد کردینے کا۔
یہ حدیث سنن ابی داؤد (۱) میں جس سند سے مروی ہے، اسے علامہ البانیؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ صحیح بخاری صحیح مسلم اور سنن بیہقی میں بھی آئی ہے۔(۲) اس مضمون کی اور بھی احادیث دیگر صحابہ سے مروی ہیں ۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی موقع پر ایک شخص سے ایک اونٹ قرض لیا تھا۔ اس نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ آپ نے اس کی ادائی کا حکم دیا۔ آپ کو بتایا گیا کہ ویسا اونٹ تو نہیں ہے، ہاں ، اس سے اچھا اونٹ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اسی کو دے دو، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا:
فَاِنَّ خَیْرَکُمْ اَحْسَنُکُمْ قَضَائً ا ۔(۱)
’’تم میں سے بہتر لوگ وہ ہیں جو ادائیگی بہتر طریقے سے کریں ۔‘‘
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں :
فَاِنَّ مِنْ خِیَارِ النَّاسِ اَحْسَنُھُمْ قَضَائً ا ۔(۲)
’’بہترین لوگ وہ ہیں جو ادائیگی بہتر طریقے سے کرتے ہیں ۔‘‘
حضرت جابرؓ سے مروی حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانیؒ اور علامہ شوکانیؒ دونوں نے لکھا ہے:
’’اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جتنا قرض لیا گیا ہو اس سے بڑھا کر واپس کرنا جائز ہے، اگر معاملہ میں اسے مشروط نہ کیا گیا ہو۔ لیکن اگر قرض لیتے وقت اس میں اضافہ کے ساتھ واپسی کی شرط لگائی گئی ہو تو یہ حرام ہے۔ اس پر جمہور علماء کا اتفاق ہے۔‘‘ (۳)
اس سے معلوم ہوا کہ سود کا اطلاق اس زیادتی پر ہوتا ہے جسے قرض کے لین دین کے وقت طے کرلیا گیا ہو اور اس کی ادائیگی قرض لینے والے پر لازم ہو۔ لیکن اگر زیادتی کے ساتھ قرض کی واپسی مشروط نہ ہو اور قرض لینے والا اپنی خوشی سے اس میں کچھ بڑھا کر واپس کرے تو یہ نہ صرف جائز، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ سے پسندیدہ ہے۔