کیا لاولد شخص اپنی کل پراپرٹی ہبہ یا وقف کر سکتا ہے؟

 زید کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کے بیٹے اور بیٹیوں میں شرعی اعتبار سے وراثت کی تقسیم بھی ہوچکی ہے۔ زید کا ایک بیٹا بکر ہے، جس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ کیا بکر کے انتقال کے بعد اس کے بھائیوں کا بھی بکر کے مال و جائیداد میں کچھ حق ہوگا؟

اگر بکر اپنی موت سے قبل اپنی تمام جائیداد کسی کو ہبہ کردے، یا مسجد یا مدرسہ کودے دے اور بھائیوں کو کچھ نہ دے، یہ سوچ کر ان کو والد سے تو مل ہی چکا ہے تو کیا اس کا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو دیکھا جائے گا کہ اس کے کون سے رشتے دار زندہ ہیں۔ قریبی رشتے داروں کی موجودگی میں دوٗر کے رشتے داروں کا وراثت میں حصہ نہیں ہوگا۔ (النساء۷) مالِ وراثت اصحاب الفرائض کے درمیان تقسیم ہوجانے کے بعد کچھ بچ رہے تو عصبہ میں سے موجود لوگ علی الترتیب حصہ پائیں گے۔

بکر کے انتقال کے وقت اگر صرف اس کی بیوی اور بھائی زندہ ہیں تو بیوی چوتھائی (25%) حصہ پائے گی، باقی (75%)بھائی کو عصبہ ہونے کی وجہ سے ملے گا۔ اگر بھائی ایک ہے تو وہ کل پائے گا۔ کئی بھائی ہیں تو ان سب کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوگا۔ اگر بھائی اور بہن دونوں ہیں تو ان کے درمیان باقی مالِ وراثت 2:1کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔ (النساء۱۷۶)

ہر شخص اپنے مال کا مالک ہے۔ وہ اپنی زندگی میں اس میں حسبِ منشا تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ وہ اس میں سے جتنا چاہے، کسی کو ہبہ کرسکتا ہے اور چاہے تو کسی کارِ خیر کے لیے وقف کر سکتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے مال کے ایک تہائی حصہ کی غیر ورثہ کے حق میں وصیت کر سکتا ہے۔ اگر وہ اپنی زندگی میں نہ ہبہ کرے نہ وصیت اور اس کا انتقال ہوجائے تو اس کا تمام مال اس کے ورثہ کے درمیان شریعت کی بتائی ہوئی تفصیل کے مطابق تقسیم ہوگا۔