جواب
بعض علماء کا خیال ہے کہ کسی زمانے میں بھی ملک یمین یعنی لونڈیوں سے جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ ان سے بھی نکاح کرنا ضروری تھا، لیکن جمہور علماء کا خیال ہے (اورمولانا مودودیؒ کا بھی یہی موقف تھا) کہ جو حیثیت نکاح کی ہے، وہی حیثیت ملک یمین کی بھی ہے۔ موجودہ زمانے میں جو جنگیں ہو رہی ہیں ، جن میں دونوں فریق (فوجیں ) مسلمان ہیں ،ان میں گرفتار ہونے والے مسلمان مردوں اور عورتوں کوکسی بھی صور ت میں غلام اور لونڈیاں نہیں بنایا جا سکتا۔ حضرت عثمان ؓکی شہادت کے بعد جو جنگیں ہوئی تھیں ، حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کی فوجوں کے درمیا ن (جنگ جمل)اور حضرت معاویہؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان (جنگ صفّین) ، ان مواقع پر صحابہ کرامؓ کے اقوال صراحت کے ساتھ موجود ہیں کہ کسی بھی مسلمان کو قیدی (غلام اور لونڈی) نہیں بنایا جا سکتا۔ دونوں جنگوں میں ہزاروں افراد قتل ہوئے تھے، لیکن ان میں سے کسی کو بھی قیدی نہیں بنایا گیا تھا۔
ایک بات یہ بھی غور کرنے کی ہے کہ قرآن مجید میں جو احکام و تعلیمات تدریجاً بیان ہوئے ہیں ، ان کو واپس نہیں لوٹایا جا سکتا۔ مثلاً اس زمانے میں غلامی کا رواج تھا۔ اسلام نے غلامی کو ختم کرنے کے لیے تدریجاً احکام بیان کیے، روزہ اور ظہار کے کفارہ میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا، غلام آزاد کرنے کی فضیلت بیان کی،یہاں تک کہ ایک زمانہ ایسا آیا کہ غلامی بالکل ختم ہو گئی۔ اب پھر سے غلامی کو رواج نہیں دیا جا سکتا۔