کیا مہر میں نقد رقم دینی ضروری ہے؟

کیا لڑکی کو مہر نقد رقم کی صورت میں دینا ضروری ہے، یا کوئی دوسری چیز مثلاً زیور بھی دیا جا سکتا ہے؟مثال کے طور پر ایک لاکھ روپے مہر طے ہوا۔ اس صورت میں کیا یہ درست ہے کہ پچاس ہزار روپے نقد دے دیے جائیں اور پچاس ہزار روپے کا زیور دیاجائے، یا ایک لاکھ روپے نقد دینا ضروری ہے۔ اگر زیور دینے کا ارادہ ہے توبیوی کو ایک لاکھ روپے مہر کے علاوہ الگ سے دینا ہوگا؟

جواب

مہر عورت کا حق ہے۔ قرآن مجید میں نکاح کے وقت شوہر کو اس کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہےوَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃٍ۝۰ۭ (النساء۴) ’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو۔‘‘

مہر کے سلسلے میں شوہر اور بیوی دونوں کی اس پر رضامندی ضروری ہے کہ وہ کتناہو؟ اور کس شکل میں ادا کیا جائے؟ مہر میں مالیت رکھنے والی کوئی بھی چیز دی جاسکتی ہے،خواہ اس کی مالیت کتنی بھی کم ہو یا زیادہ۔ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا

اِذْھَبْ فَالْتَمِسْ وَلَو خَاتَماً مِنْ حَدِیْدٍ (بخاری۵۸۷۱،مسلم۱۴۲۵)

’’جاؤ، (مہر میں دینے کے لیے) تلاش کرکے لاؤ، چاہے لوہے کی ایک انگوٹھی ہی ہو۔‘‘

مناسب ہے کہ مہر طے کرتے وقت لڑکی اور اس کے گھر والوں سے استصواب کرلیاجائے، تاکہ انھیں معلوم ہوجائے کہ مہر میں کیا چیز اور کتنی مقدار میں دی جارہی ہے اور ان کی رضا بھی حاصل ہوجائے۔ ویسے بہتر ہے کہ مہر نقد رقم کی شکل میں ادا کیا جائے، تاکہ لڑکی اس پر آزادانہ تصرف کرسکے اور اس کے ذریعے اپنی جو ضرورت پوری کرنی چاہے، کرسکے۔ اگرزیور بھی دینے کا ارادہ ہو تو اسے مہر سے الگ بہ طور تحفہ دیا جائے۔

مہر کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں ایک مہر معجّل، یعنی جسے نکاح کے بعد فوراً ادا کیا جائے، دوسری مہر مؤجل، یعنی جسے بعد میں ادا کیا جائے۔ صحیح بات یہ ہے کہ شریعت میں مہر مؤجل پسندیدہ نہیں ہے۔ مہر کو نکاح کے وقت ہی ادا کرنا چاہیے، یابعد میں جلد از جلد اسے اداکرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر مہر مؤجل طے کیاجائے تو بہتر ہے کہ اسے نقد رقم کی شکل میں طے کرنے کے بجائے سونے کی متعین مقدار کی شکل میں طے کیا جائے، تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی قدر (value) میں کمی نہ آئے، بلکہ اضافہ ہوتا رہے۔